زبان کی اپنی ثقافت ہوا کرتی ہے جبکہ خیالات کی ایک اپنی تہذیب۔۔۔ شاعری کو زبان و خیالات کے امتزاجی تعامل کی بامعنی صورتِ حال کا ارفع ترین اظہاریہ قرار دیا جانا چاہیے کہ شاعری پیغمبرانہ صفاتِ کلام میں بھی درجہ فضیلت پر فائز رہی ہے۔ شاعری کو ذریعہ اظہار بنائے جانے کا انحصار ہمیشہ تخلیق کار کی فطری توفیقات پر رہا ہے۔۔۔ غالباً اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ شاعری اپنے تخلیق کار کا انتخاب خود کیا کرتی ہے۔۔۔ طاہرعدیمؔ اس حوالے سے خوش نصیب واقع ہوتے ہیں کہ اردو شاعری کی دیوی نے عرصہ طویل سے جرمنی مقیم ہونے کے باوجود ان پر اپنی عنایات بہ کمالِ تمام مسلسل ارزاں رکھی ہیں۔۔۔ ’’بقائے دوام‘‘ انہی شعری عنایات کا نہایت خوبصورت حاصل ہے۔۔۔ یہ طے ہے کہ زندہ شاعری کی تخلیق کے لیے صرف موزوں طبع ہونا ہی کافی نہیں ہوا کرتا جب تک کہ شعری ہنروری کے مطالبات سے آگہی حاصل کرتے ہوئے ریاضت کا وطیرہ اختیار نہ کر لیا جائے۔ درحقیقت ریاضت ہی فکری مواد کی رواں ترسیل کے لیے باسلیقہ اور شائستہ طریقِ اظہار متعین کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔۔۔ اور ریاضت ہی کی بنیاد پر تخلیق کار اپنے فکری نتائج پر منحصر پیچیدہ اور دقیق مضامین سہولت کے ساتھ پیش کرنے کا شعری میکنزم ترتیب دے پانے کا ثمر پاتا ہے۔ جبکہ لفاظی کی حدود و قیود۔۔۔ استعارات و کنایہ جات کی تخصیص کے ساتھ ساتھ طرزِ فکر کے لوازمات بھی شاعری کے مزاجی خدوخال تخلیق کرنے میں اپنے کمالات کا اظہار کرنے پر مامور رہتے ہیں۔۔۔ اپنے اسلوب کے اعتبارات قائم کرنے کے لیے شاعر کو بہرطور اپنے احساسات و جذبات کے اظہاری توازن کے معیارات مقرر کرنے ہوتے ہیں اور یہ معیارات مقرر کرنے کے لیے اُسےُ حسنِ خیال کے ساتھ ساتھ طرزِ بیان کو بھی ’’اوزارِہُنر‘‘ کے طور پر استعمال میں لانا ہوتا ہے۔ اپنے شعری میکنزم کے میسر ٹولز کا بہترین استعمال ہی ایک شاعر کو ہنرور شاعر کے طور پر سامنے لاتا ہے۔
’’بامِ بقا‘‘ اگرچہ طاہر عدیمؔ کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ مگر یہ مجموعہ ان کی شعری شباھت(ایسی شباھت کہ جو شناخت بھی بن سکے) تصویر کرنے میں پوری طرح کامیاب و کامران قرار پانے کا اس لیے بھی اہل ثابت ہوا ہے۔۔۔ کہ طاہرعدیم نے اپنے مصفا فکری عناصر کی تزئین کے لیے ہنرورانہ شعری مطالبات سے اغماض کا برتاؤ کرنے سے شعوری طور پر اجتناب کا طریق اختیار کیا ہے۔
طاہر عدیمؔ کی شعری فضا میں خاندان اور گھر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری باہمی رشتوں کے اثبات کی شاعری کے طور پر خود کو متعارف کرواتی ہے۔ وہ فطری اعتبار سے جن رشتوں سے بندھے ہوئے ہیں انہیں خراج پیش کرنے کے لیے ان کی شاعری ان کے نزدیک بہترین وسیلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ’’ہرسلسلۂ عمر کا مکتوب‘‘ انہی کے نام تحریر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ’’بامِ بقا‘‘ میں ان کے سلسلۂ عمر کے یہ مکاتیب انتساب، قطعات، غزلیہ اشعار حتیٰ کہ نظموں کی صورت میں بھی جابجا، ورق بہ ورق اپنی بہار دکھاتے ہوئے نذرِاہلِ وفا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
والدین، اہلیہ، بچوں، بہنوں، بھائیوں اور حلقہ احباب سے ہوتا ہوا ان کی محبتوں اور رشتوں کا یہ سلسلہ پھلتے پھولتے فرد کے فرد اور انسان کے انسان کے ساتھ رشتے کی تقدیس پر ان کی نظر مرکوز کر دیتا ہے اور بالآخر وہ ’’شہر میں چلتے ہوئے ہر آدمی پر غور کر‘‘ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔۔۔ خانگی زندگی اور اہلِ خانہ سے تعلق کے اثبات کے لیے جس قدر اشعار یا تخلیقات ان کے شعری اثاثے میں نظر آتے ہیں اس کی مثال ان کے دیگر ہمعصر شعرأ کے ہاں یا یوں کہہ لیجئے کہ عصری شاعری میں کم کم ہی نظر آتی ہے۔ جن محرکات نے باہم مل کر شعری حوالے سے ان کے بنیادی شعری عناصر میں محبت اور بالخصوص اہلِ خانہ سے محبت کے عنصر کو تواتر کے ساتھ شامل رکھا ہے۔ ان میں سے اہم ترین محرک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
خراج دے کے گزرتے ہیں نفرتوں کے ہجوم پَلا ہوا میں محبت کے ماہ و سال میں ہوں
ان کے نزدیک شعورِذات کا بہترین وسیلہ باطنی اسرار و رموز پر نتیجہ خیز غوروفکر کا عمل ہے۔ غالباً حصولِ عرفانِ ذات کے اِسی عمل کا فیضان ہے کہ وہ ُ حسنِ توجہ کی وساطت سے خود میں پیروقلندر تک دریافت کر لینے میں کامیاب رہتے ہیں:
ہے ضرورت فقط اِکُ حسنِ توجہ کی مجھے مرے اندر ہیں چھپے ِ پیر و قلندر کیا کیا
مگر وہ باطنی اسرار کی کھوج میں کسی مست الست تارک الدنیا کی بجائے ہوشمند اور باعمل انسان کے طور پر منہمک ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں اپنا تختِ خرد بھی اس قدر ہی عزیز رہا ہے، جتنی مسندِعشق، تختِ خرد اور مسندِ عشق کی یکساں آگہی ان کی تگ و تاز کا بہترین ماحصل ہے۔
جاگزیں تختِ خرد پر بھی رہے ہم اور پھر رونقِ مسندِ عشاقِ اٹل بھی ٹھہرے
البتہ یہ الگ قصہ ہے کہ تختِ خرد ہو یا مسندِعشق طاہرعدیمؔ جہاں پر بھی متمکن ہوں ان کی سوچوں کا محور ان کی اپنی مٹی اور اپنے لوگ رہتے ہیں۔ اپنی مٹی اور اپنے لوگوں سے تعلق کی مضبوطی ہی میں ان کے نزدیک ان کی بڑائی کا راز مضمر ہے۔
ِمری بنیاد مٹی سے اُٹھی ہے سو مٹی کا کھلونا چاہتا ہوں
تعلق ڈھال کر انگشتری میں میں اُنگلی میں پرونا چاہتا ہوں
بڑا ہوں ، پر بڑا ہی تو نہیں ہوں بڑا کچھ اور ہونا چاہتا ہوں
انسانی سرشت میں انسان کے تخلیقی عناصر مٹی، پانی، آگ، َ ہوا کی کارگزاری ان کا خاص موضوع ہے اور اس کارگزاری کی تہہ در تہہ پوشیدہ معنویت اُجاگر کرنے کے لیے انہوں نے اپنے شعری وجدان اور قوتِ تخلیق سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے ’’مٹی‘‘، ’’پانی‘‘، ’’آگ‘‘ اور ’’ہوا‘‘ کی ردیف میں خوبصورت غزلیں تخلیق کی ہیں اور مضامین تازہ کی خوبئ بندش کا حق ادا کیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند اشعار پیش ہیں:
مثلِ ُ سرمہ لگاؤں آنکھوں میں اس کے پاؤں کی چوم کر مٹی
کل ِ مرے لاشعور کوُ چھو کر خواب سارے بھگو گیا پانی
ہر رگ و پے میں جاگزیں ہے آگ میری تخلیق کا یقیں ہے آگ
ادھ کھلی آنکھ سے مَیں دیکھتا ہوں لے کے دل کا دیا، کہاں ہےَ ہوا
بلاشبہ طاہرعدیمؔ کو بھی کم و بیش ڈیڑھ دھائی پر محیط ان کی شعری ریاضت نے اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں ایک تخلیق کار کی شعری تخلیقات سہل ممتنع کی ذیل میں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ مشکل مضامین کی قافیہ بندی میں زبان و بیان کی تائیدی سہولت میسر ہونا نصیب ہو جائے تو پھر درج ذیل نوع کے اشعار خودبخود ضبطِ تخلیق میں آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت اسی نوع کے وہ اشعار ہوتے ہیں کہ جو قبولِ عام کی سند پانے کے لیے کسی تشہیر کے محتاج نہیں ہوتے:
ذہن و دل کا ہے معرکہ دیکھیں کس کا قِصّہ تمام ہوتا ہے
بے وجہ آج دل اُداس ُ ہوا بے سبب آج آنکھ بھر آئی
خود تماشہ ہوں اور میں خود ہی اپنے حالات کا تماشائی
زندگی مَیں تو خیر کیا کرتا زندگی نے مجھے گزارا ہے
طاہر عدیمؔ مزاجاً شاعری بسر کرنے والا تخلیق کار ہے۔ وہ شاعری سے روحانی سطح پر لُطف اندوز ہوتا ہے۔ شعر کی بہتری کا معیار اس کے نزدیک یہی ہے کہ وہ روحانی تشفی کا باعث بنے۔ لہٰذا تخلیقی عمل کے دوران اپنی روحانی تشفی کے لیے وہ اپنا مضمون سو سو رنگ سے باندھتے نظر آتے ہیں۔ مگر ہر پرفیکشنسٹ کی طرح ان کی طمانیت کا اعزاز ان کی تخلیقات کو بمشکل ہی میسر ہو پاتا ہے تاہم وہ خوب سے خوب تر کے لیے فکری مشقت کرتے رہنے میں چنداں مضائقہ نہیں جانتے۔۔۔ یہی اُن کی ُ پرگوئی کا راز بھی ہے۔اپنے معیارِ شعر کی موزونیت کے لیے کہیں وہ دامانِ غزل میں پنجابی الفاظ کے ستارے ٹانک کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو کہیں وہ ’’علاقائی‘‘ لب و لہجہ میں گنگنا کر سخنوری سے حظ اُٹھاتے ہیں ان کے دکنی لب و لہجہ کے چند اشعار ملاحظہ فرمایئے:
گر لبِ پانیاں ہوئیں نہ ہوئیں دل کی طغیانیاں ہوئیں نہ ہوئیں
اس ُ بتِ برف ، خشت ُ خو کے تئیں اپنی قربانیاں ہوئیں نہ ہوئیں
جب کمک اِس طرف نہ کوئی ہوئی اُس کی رحمانیاں ہوئیں نہ ہوئیں
ان کی شاعری کا ایک نمایاں حصہ یاس و آس اور ہجر و وصال کے باہم درمیانی منطقے میں رہ کر وقوع پذیر ہوا ہے۔ وہ تمام مناظر جو چشمِ سیاح کو اس منطقے میں دکھائی پڑنے چاہئیں۔۔۔ دکھائی دیتے ہوئے اُسے نظارت کے منفرد تجربے سے روشناس کرواتے ہیں۔ ہجرووصال، آس و یاس کے اس بہم درمیانی خطے کے چند مناظر ملاحظہ ہوں:
کسی کے ہجر کا چولا، قبا جدائی کی کسے خبر ہے کہ ہم خوش لباس کتنے ہیں
اب ہمیں تاریکیوں کا خوف کیا ہو پائے گا چاند سا چہرہ ہمارا ہمسفر ہونے کو ہے
اک گھٹا ٹوپ اندھیرا سا نظر آتا ہے ہجر میں کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا مجھ کو
وہ خواب خواب شخص برابر نشین ہے عہدِگمان ہے کہ یہ عہدِ یقین ہے
ہجرووصال کے مضامینِ شعر کا تعلق مجموعی اعتبار سے ہمیشہ غزل کی قدیم شعری روایت سے جڑا رہا ہے۔۔۔ مگر ہر دَور میں ایسے فسوں کارو فسوں ساز فنکار پیدا ہوتے رہے ہیں کہ جن کے دم سے تجدیدِ روایت کی آبرو قائم رہی ہے یہ انہی کے خونِ جگر کا اعجاز ہے کہ آج بھی طاہرعدیمؔ ایسے تخلیق کار اپنے لب و لہجے کو روایت سے گہرے انسلاک کے باوجود امتیاز اور تازگی عطا کرنے کی کدو کاوش میں سرخرو ٹھہرتے ہیں۔
طاہر عدیمؔ خوب جانتے ہیں کہ روایت سے کٹ کر اردو غزل کے نہ صرف یہ کہ اپنی اثرپذیری سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خدشہ ہے بلکہ ایسی جدت کہ جو روایت سے بغاوت پر اُتر آئے۔ ابلاغ کی صلاحیت سے یکسر محروم ہو گی۔ لہذا تجدید روایت کا عمل ہی ان کی نگاہ میں اعتبار پاتے ہوئے ان کا شعری منصب قرار پاتا ہے۔ برسوں پہلے افضل احسن رندھاوا نے ایک شعر کہا تھا جو ان کے واحد(تاحال) شعری مجموعے ’’ایک سورج میرا بھی‘‘ کی وساطت سے منظرِعام پر آیا۔
اسے تشبیہ کا زیور نہ پہنا وہ خود اک چاند ہے پھر چاند سا کیا
جو بعد ازاں ’’توارد‘‘ کے بعد عدیم ؔ ہاشمی کے ہاں اس طرح سے نظر آتا ہے:
اُسے تشبیہ کا دوں آسرا کیا وہ خود اک چاند ہے پھر چاند سا کیا
یہی روایت جب اپنا سفر طے کرتے ہوئے طاہر عدیمؔ تک پہنچتی ہے تو ان کا وجدانِ شعر کی نوع کے توارد کو اپنے اندر اثر پذیری کا موقع دیئے بغیر یہ مصرعے گنگنا اُٹھتا ہے:
ماہ و خورشید ہے ، ستارہ ہے روشنی اُس کا استعارہ ہے
الغرض ’’بامِ بقا‘‘ میں طاہر عدیمؔ روایت کو نئی معنویت سے آشنا کرتے ہوئے غزل کا سفر آگے بڑھانے میں اپنا کردار بہُ حسن و خوبی نبھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یعنی وہ ’’بامِ بقا‘‘ کے آئینے میں روایت پرست یا روایت شکن شاعر کی بجائے روایت ساز شاعر کی شناخت بناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
طاہر عدیمؔ کی ہنرورانہ شعرگوئی میں سب سے نمایاں کردار ان کی۔۔۔ بقول ظفر اقبال ’’مصرع سازی‘‘ کا ہے۔ ان کے مصرعے رواں اور زبان کی چاشنی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ بسا اوقات تو ایک ایک مصرعہ اپنی معنویت میں پورے کا پورا مضمون ادا کرتے ہوئے مکمل شعر کا مزہ دے جاتا ہے اور بطور مضمون اپنی جا پر خود حوالہ بن جانے کا اہل ٹھہرتا ہے۔ تنقیدی اعتبار سے بالخصوص ظفراقبال اگر گاہے گاہے شعرگوئی میں مصرع کی ساخت پر قدرت کی اہمیت کا تذکرہ فرماتے رہتے ہیں تو بلاشبہ رموزِ فن کے حوالے سے اس کا جواز بھی بنتا ہے۔۔ طولِ کلام کا مقام نہیں ہے لہٰذا ان کی ’’مصرع سازی‘‘ سے متعلق چند مثالیں پیش کرنے پر ہی اکتفا کر لینا مناسب ہو گا۔
؂ تہمت مِرے وجود کو ُ چھو کر پلٹ گئی
؂ گھر میں روشن ہیں مِرے تن کا لہو پی کے چراغ
؂ گنبدِزیست میں اس کا ہی ُ ہنر گونجتا ہے
؂ وہ مثلِ آب ہے لیکن گھرا ہے شعلوں میں
؂ زندگی تجھ کو ِ مرے تن میں بھٹک کر کیا ملا
؂ آتی صدی میں کیسے سواگت کروں ترا
؂ پرایا دیس پرائی پرم پرائیں تھیں
؂ خار کرتے ہیں رفو چاک ِ مرے
طاہر عدیمؔ کے فن کا بغور جائزہ لیا جائے تو مصرع سازی کے ساتھ ساتھ ترکیب سازی بھی ان کے فن کا ایک نمایاں پہلو ٹھہرتی ہے تاہم ان کے ہاں تراکیب زبان و بیان کے شعوری جوڑتوڑ کی بجائے وجدانی اور تخلیقی وفور کا فطری عطیہ دکھائی دیتی ہیں۔ ترکیب سازی اصل میں گرانبارئ افکار کو ’’سبک خرامی ء گفتار‘‘ میں ڈھالنے کا فن ہے۔۔۔ اور طاہرعدیمؔ اپنے فنی اظہار میں مرکبات لفظی کی معاونت حاصل کر لینے کے ہنر سے بخوبی آگاہ ہیں۔
اے حسنِ تشنۂ تعریف اس طرف سے گزر مآلِ دیدۂ سرشار انتظار میں ہے
کھول کر اس کا خیال، اپنے گماں کی آنکھیں پہلوئے سینۂ قرطاسِ یقیں پر اُترا
اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے جہاں اسے متھالوجیکل (Mithalogical) اندازِ بیان اختیار کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔۔۔ وہ دستیاب متھ(Mith) کی مدد سے اپنے لمحۂ موجود کا پیش منظر کلک کرتے نہیں چوکتے اور تصویر ایسی آرٹسٹک (Artistic) کھینچتے ہیں کہ دیدۂ بینا کی میراث بن کر رہ جاتی ہے۔
دیکھو تو شان میرے حسیں شہسوار کی بازو کٹا ہوا بھیَ علم سا دکھائی دے
کب کیا تھا ِ مری آنکھوں نے لہو کا گریہ اشک آنکھوں کے عزادار کہاں تھے پہلے
خواب ان کے ہاں ناآسودہ آرزو اور تمنائے حسرت آیات کا استعارہ ہے لہٰذا ان کا خواب کی وساطت سے اظہار مطمع نظر کا شعار نہایت فطری ٹھہرتا ہے۔
کل رات نیند ٹھیک سے آئی نہیں ہمیں کل رات ہم سے دست و گریباں ہوئے ہیں خواب
ایک مدت تک سجائے جسم و جاں جس خواب سے اس کی اے مولا مجھے تعبیر بھی انمول دے
وطن اور اہلِ وطن سے دُوری کا عذاب، عرفِ عام میں جسے بھی کہہ لیا جاتا ہے۔ دیارِغیر میں مقیم اہلِ وطن کی مشترکہ ابتلا ہے۔ دیارِغیر میں مقیم اہلِ قلم جہاں خارجی سطح پر روزگارِ زندگی میں سرگرمی سے اپنے مادی فرائض سے عہدہ برآ ہو رہے ہوتے ہیں وہاں باطنی حوالے سے اپنی سرزمین اپنی آب و ہَوا میں ہی سانس لیتے رہنا ان کی طرزِزندگی کا لازمہ قرار پاجاتا ہے۔ وطن سے کوسوں دُور ہونے کے باوجود ان کا دل وطن کے لیے ہی دھڑکتا ہے اور وطن ان کی دعاؤں، اُمیدوں، خوابوں اور جذبوں کا منبع بنا رہتا ہے۔ وہ اپنے مادروطن کے معاملاتِ بست وُ کشاد میں شعوری اور لاشعوری ہر حوالے سے غائبانہ طور پر مسلسل شریک رہتے ہیں۔ طاہر عدیمؔ نے بھی ’’بامِ بقا‘‘ کے اپنے پہلے شعری اثاثے میں وطن سے اپنی کمٹمنٹ کو جابجا ذریعہ اظہار بنایا ہے ان کی غزلیات میں جابجا اپنے دیس اور اپنے لوگوں کی عکاسی واضح طور پر اتنی جامع نظر آتی ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں اپنی حسیاتِ کلی اپنے دیس میں ہی چھوڑ کر پار سمندر جا بسنے پر ملکہ حاصل ہو چکا ہو۔۔۔ عرصہ طویل سے پاکستان میں بار بار جو ایک جمہوری تجربہ دہرائے جانے کی صورت بنی رہی ہے اور اس کا جو حشر ہوتا رہا ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
جس سفر سے بارہا لوٹا ہوں دامن جھاڑ کر پھر مجھے درپیش ویسا ہی سفر ہونے کو ہے
اپنی قوم میں شامل میر جعفر اور میر صادق ایسے گھناؤنے کرداروں کے مکروہ رویے پر برملا اظہارِ ردّعمل کے لیے وہ یوں گریا ہوتے ہیں:
میرا دشمن تو مجھےُ چھو بھی نہیں سکتا تھا مجھ پہ حملہ مِرے اپنے ہی حواری نے کیا
اور پھر جب وہ ان کرداروں کی سرکوبی کے لیے آگے بڑھتے ہوئے اپنے اردگرد نگاہ ڈالتے ہیں تو بے ساختہ پکار اُٹھتے ہیں:
کسے شکار کروں میں کہ ان درندوں کا مِرے نگر میں قبیلہ دکھائی دیتا ہے
یا بطور مثال ’’میں اور بامِ بقا‘‘ میں شامل درج ذیل اشعار دیکھئے اور فرمایئے کیا ان میں ہمیں اپنا جانا پہچانا قومی، ملی یا ملکی منظرنامہ نظر نہیں آ رہا؟
منزلِ غربتِ شہرِجاں رائیگاں ہمسفر کارواں ہے رواں رائیگاں
فگار چھت کا تصور ، شگاف در میں رہا کمال حادثہ یارو ہمارے سَر میں رہا
دیس کی مٹی میں اُن کا جو نخل محبت پھل پھول رہا ہے طاہرعدیم اس کی نشوونما سے روحانی سطح پر پوری طرح مطمئن اور نہایت پُرامید ہیں اور اس پرامیدی کے جواز کے طور پر ان کے پاس نہایت ٹھوس دلیل بھی موجود ہے۔ اس ضمن میں اپنی دلیل پسِ پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
اس کو سینچا ہے لہو سے مَیں نے اس کا سایہ بھی گھنیرا ہو گا
اپنے بچپن کے حوالے سے پُرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے (جیسا کہ کم و بیش ہر تخلیق کار کا رویہ کبھی کبھار ناسٹلجک(Nostelgic) ہو جاتا ہے) کہیں کہیں وہ بھی ناسٹلجیا() کا شکار ہو جاتے ہیں جب وہ پرانی یادوں کی رو میں بہتے ہیں تو ان کے حافظے سے ایک نعرۂ مستانہ یوں برآمد ہوتا ہے۔
اب بھی بڑھ کر ہیں مجھے وہ خوشنویسی سے کہیں آڑے ترچھے تختیوں پر ابتداء کے دائرے
تاہم اُن کا دائرۂ فکر صرف حدودِ مادرِوطن پر ہی محیط نہیں ہے بلکہ بنی نوع انسان پر جہاں کہیں بھی کڑا وقت گزر رہا ہو، کوئی آفت آئی ہوئی ہو خواہوہ آفت دنیاوی ہو یا سماوی وہ اس سے روحانی سطح پر اسی طرح متاثر دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے کسی بھی دردمند اور اہلِ دل تخلیق کار کا ہونا تقاضۂ فطری ہے۔۔۔ سونامی نے تیسری دنیا کے اکثر ممالک میں جو تباہی و بربادی پھیلائی ہے اور جس طرح آن کی آن میں شہر کے شہر نیست و نابود کر ڈالے ہیں وہ اس آبی قیامت سے گزرتے ہوئے کہہ اُٹھتے ہیں:
اس سے بڑھ کے بھلا عبرت کی علامت کیا ہے شہر کے شہر ہیں ویران ، سلامت کیا ہے
آندھیاں، زلزلے، طوفان اُٹھاتے ہوئے سیل عرصۂ حشر سے پہلے ہی سزاؤں کا نزول
مکتبِ فکر کے حوالہ سے اگر ان کے شاعرانہ مزاج کا تعین کیا جائے تو اپنی ڈکشن اور اسلوب کے اعتبار سے طاہر عدیمؔ روشن خیال اور ترقی پسندانہ اقدار کے حامل حوصلہ مند شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ اُن کے تخلیقی بہی کھاتے میں بنی نوع انسان کے وہ تمام آلام و مصائب، دکھ درد اور تکالیف جمع تفریق ہوتی ہوئی لکھی جا سکتی ہیں۔ جن کا تعلق کمزور، پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات سے ہے:
صد حیف سرِ رفعتِ ایوانِ مظاہر سر جس کا سجا، صاحبِ دستار نہیں تھا
ہمیں غرور بریدہ بدن سَروں کا ہے ہر ایک آنکھ سے بہتا ہو ا لہو ہم ہیں
ہم اہلِ عشق کا یارو ! یہی تو شیوہ ہے لہو زمیں کے لیے ہے تو سرسناں کے لیے
بکھرے درد وراثت میری اُجڑے لوگ اثاثہ ہیں اُجلے ذہن خزانے میرے میں فطرت کی مایا ہوں
’’بامِ بقا‘‘ اگرچہ طاہرعدیمؔ کا اولین شعری مجموعہ ہے مگر مجھے یقین ہے کہ یہ شعری مجموعہ ان کے لیے ایک ہنرور شاعر کی پہچان استوار کرنے میں نہایت کامیاب گردانا جائے گا۔۔۔ ’’بامِ بقا‘‘ کے حوالے سے طاہر عدیم نے گو اپنے پہلے پڑاؤ کا اعلان کیا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ ان کا یہ پہلا شعری پڑاؤ ہی ان کے لیے ان کے بہترین مستقبل کی بہترین فتوحات کی شروعات ثابت ہو گا۔ ان کی آئندہ شاعری یقیناًان کی ’’عمدہ‘‘ شعری شناخت کو ’’نہایت عمدہ‘‘ کے مرحلے میں کامیابی سے داخل کرنے کا باعث بنے گی۔۔۔
طاہر عدیمؔ ایسا خود آگاہ و خودشناس شاعر جب یہ کہتا ہے کہ
محیطِ ارض و سما ہے یا اختصار میں ہے مری اُڑان مِرے اپنے اختیار میں ہے
تو اس کے بہترین شعری مستقبل پر کسی طرح کے اظہارِ شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں نکل پاتی!
’’بامِ بقا‘‘ میں شامل ان کی نظمیں ’’کھل نہ پایا حال‘‘ معاشی آسودگی کے حصول کے لیے دیارِغیر کی اقامت کے عوضانے میں قربان ہوتی ہوئی محبتوں کی المناک داستان کا متاثرکُن اظہاریہ ہے جبکہ ’’سالگرہ‘‘ اپنی محبت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے تخلیقی وسائل کے بھرپور استعمال کی بہترین مثال ہے۔ اپنی دیگر نظموں میں وہ ’’جو خواب تھا‘‘، ’’نشان صورتِ منزل کہاں؟‘‘، ’’اک دریدہ لباس شہزادی‘‘، ’’خواب سے حقیقت تک‘‘، ’’بچھڑ کے اس سے میں کیا کروں گا‘‘ ’’محبت ہی محبت‘‘ کم و بیش سب کی اساس محبت اور دردمندی کے لطیف احساسات پر رکھی گئی ہے۔ بطور نظم گو بھی اگر طاہرعدیمؔ کے فن کو تنقیدی نقطہ نظر سے جانچا جائے تو وہ خوبصورت اور مؤثر نظم کہنے کے اہل شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں البتہ اگر ان کی نظم کا ان کی غزل سے تقابل کیا جائے تو کہنا پڑتا ہے کہ طاہرعدیم ؔ نے غزل کے میدان میں اپنا ہر ہر جوہر اور ہر ہر ہنر آزما لینے کا شاندار مظاہرہ کیا ہے اس کی وجہ غالباً یہ ہو سکتی ہے کہ ان کا میلانِ طبع فطری طور پر صنفِ غزل سے زیادہ مانوس ہے دوسرے لفظوں میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ اردو شاعری کی دیوی نے غزل کہنے کے لیے انہیں زیادہ سہولت فراہم کر رکھی ہے۔۔۔ میری ناقص رائے میں بطور ’’نظم گو‘‘ ان کی شناخت اُسی وقت اُجاگر ہو سکے کہ جب صرف نظموں پر مشتمل ان کا کوئی شعری مجموعہ منصہ شہود پر آئے گا۔
روشنی اس کی لکیروں میں سدا پلتی رہے اے خدا جلتے رہیں اس کی ہتھیلی کے چراغ
خدا کرے کہ گہرے رنگوں کا نقّاش، یہ تازہ دم اور شائستہ فکر شاعر اسی کامیابی و کامرانی سے اپنی تخلیقی مسافت کی منزلوں پر منزلیں طے کرتا چلا جائے اور اس کا شعری تحرک آتے وقتوں میں ادبی حوالے سے نئی سمتوں کا روشن سراغ ثابت ہو۔آمین

خاور جیلانیؔ



Post a Comment