عہدِ حاضر میں اُردو پنجابی کے نمائندہ شاعر جنابِ یونس متین ، جنابِ زعیم رشید کے ہمراہ قسور مبارک بٹ کے ہاں تشریف لائے۔ مُلاقات میں جِس قدر بے تکلّفی ہو اُتنی ہی چاشنی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہی بے تکلّفی اس نشست کا خاصا تھی۔ جو تھا جیسے تھا کی بنیاد پر مہمان نوازی کے بعد گُفتگو کا سلسلہ چل نِکلا۔ متین صاحب نے ساہیوال سے وابستہ پُرانی یادیں تازہ کیں جِن میں ایزد عزیز صاحب کا خُصوصی ذِکر ہوا۔ پنجابی زبان و ادب اور اصنافِ سُخن پر بات چل نِکلی تو انکشاف ہوا کہ متین صاحب پنجابی میں ایک مُنفرد صِنف متعارف کروا چُکے ہیں۔ جِسے ہم 'ہاڑا' کا نام دیتے ہیں۔ صِنفی اعتبار سے یہ بین یا 'وین' سے مُختلف ہے۔ متین صاحب کے ہاڑے تو غم کی تصویر ہیں لفظوں سے خُون ٹپکتا ہے۔ راقم نے اس پر تفصیلی مضمون لکھنے کا وعدہ کیا۔ غزل اور نظم میں 12 کتابوں کے خالق اور اپنے مُنفرد انداز سے دنیائے ادب میں نیک نامی کمانے والے یونس متین صاحب نے راقم سے کلام سُنانے کو کہا۔ میری ایک غزل کی مُترنّم بحر پر جھوم اُٹھے اور میرا دلِ گویا بلّیوں اُچھلنے لگا۔ بڑا پن ہے جو توجّہ فرمائی۔ قسور بٹ صاحب دانِش نے بڑا محظوظ کیا۔ موقع کی مناسبت سے چُست جُملوں اور لطائف سے قہقہوں کی گونج اُٹھتی۔ پھر زعیم رشید صاحب نے اپنے کلام سے نوازا۔ حاضرین نے بے حد لُطف اُٹھایا۔ یومس متین صاحب کے کلام اور پھر والہانہ انداز نے دِل پر اثر کیا۔ اشعار میں موجود تخیّل نے ہمیں جیسے زمانوں کی سیر کروا دی ہو۔ محفِل میں فاروق بیگ ہوں اور موسیقی نہ ہو؟ ہارمونیم اور ڈھولک کی سنگت میں متین صاحب کا خوبصورت کلام حاضرین کی نذر کیا گیا۔ ایک رات میں شاید کئی سالوں پر مُحیط تفریح کا سامان بہم مُیسّر تھا۔ حاضرین میں عبدالباسط، سیف منظور اور بوریوالہ سے مہمان موسیقار ساغر صاحب بھی موجود تھے۔ احباب کی بے تکلّفی نے اِتنا کُچھ جاننے کا موقع دیا کہ گُمان ہوا جیسے برسوں کی رفاقت ہے۔

Post a Comment