چشمِ پُر نم سے تو قطرہ نہ سنبھالا جائے
درد ایسا ہے کسی طور نہ ٹالا جائے
جس سے کم خواب میں لپٹی میں خریدوں خواہش
ایسا سکّہ کسی ٹکسال میں ڈھالا جائے
فرق کچھ ایسا زیادہ بھی نہیں ہے لوگو
سانپ کوئی ہو کہ انسا ن کو پالا جائے


بیتے ایّام بھی غرقاب خزانے جیسے
یہ خزانہ بھی سمندر سے نکالا جائے
یار مشکل میں گئے ساتھ ہوا کے دیکھو
جیسے آندھی میں سبک روئی کا گالا جائے
ہجر دل کو بھی کیے دیتا ہے کلّر کلّر
جاتے جاتے ہی ذر ا یا د کا جالا جائے
کوئی کاسہ بھی نہ تذلیل کا کاسہ جانو
کوئی سکّہ بھی حقارت سے نہ ڈالا جائے
**

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں