خواب کے روپ میں نہیں ، اشک میں ڈہل کے آوں گا
اب کے مَیں تیری آںکھ میں بھیس بدل کے آوں گا !!
شعلوں بھرا سفر سہی ، آگ کی رھگذر سہی
آپ بلائیں گے تو مَیں آگ پہ چل کے آوں گا
رنگ کھلے ھیں شام کے اور ترے پیام کے
تھوڑا سا جھوم جھام کے ، تھوڑا سنبھل کے آوں گا
ہوں گی تمہارے ضبط کی ساری فصیلیں منہدم
روگ نہیں سکو گے تم ، ایسے مچل کے آوں گا
ذات کا سنگ ہوں ، سو ہوں صبر کی آگ میں ابھی
شیشہِ عشق میں تو مَیں سارا پگھل کے آوں گا
بہت خوب انتخاب ہے
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں