ساغر صدیقی کا اصل نام محمد اختر تھا۔ وہ 1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے۔ اوائل عمر سے شعر و شاعری سے شغف تھا۔ ابتدا میں ناصر حجازی تخلص کرتے تھے۔ پھر ساغر صدیقی کا قلمی نام اختیار کیا اور اسی نام سے شہرت پائی۔
ساغر صدیقی اعلیٰ پائے کے شاعر تھے۔ وہ بڑے زودگو تھے۔انھوں نے کئی فلموں کے نغمات بھی لکھے جن میں دو آنسو، غلام، سرفروش، باپ کا گناہ، جبرو اور باغی کے نام سر فہرست ہیں۔
ساغر صدیقی عموماً کسی قبرستان میں یا کسی مزار پر مجذوبوں کی صورت میں پڑے رہتے تھے۔ اسی ماحول میں انہوں نے گھٹیا نشے بھی کرنا شروع کردیے جس کے باعث ان کی صحت بہت جلد جواب دے گئی اور وہ فقط 46 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔
ساغر صدیقی کی شاعری کے کئی مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں خشت میکدہ، لوح جنوں‘ شب آگہی‘ شیشہ دل‘ غم بہار‘ مقتل گلی اور زہر آرزو کے نام شامل ہیں۔
ساغر صدیقی 19 جولائی 1974ءکو لاہور میں وفات پاگئے اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے ۔
ان کے مقبرے پر انہی کا یہ شعر تحریر ہے
وہاں اب تک سنا ہے سونے والے چونک اٹھتے ہیں
صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزر آئے

Post a Comment