دشوار مجھے وقت کا ریلا نہ ہُوا تھا
اتنا مَیں کسی روز اکیلا نہ ہُوا تھا
پاؤں کے اٹھا دینے میں تکرار تھی کیسی
اس درجہ مرے آگے جھمیلا نہ ہوا تھا
ہر بات پہ اب چڑچڑا پن مجھ پہ جھپٹ جائے
پہلے تو کبھی اتنا غصیلا نہ ہوا تھا
اک پھول بھی اس طرح نہ تھا مجھ سے گریزاں
اک خار بھی اِس طرح نکیلا نہ ہوا تھا
کیا کیا نہ رکاوٹ لگی کس کس نہ گلی میں
کس حال میں کس کوچے میں کھیلا نہ ہوا تھا
پھر بھی ہمیں مل جاتا تھا کیا کیا نہ دکاں سے
گو ہاتھ میں اپنے کبھی دھیلا نہ ہوا تھا
لذّت کی تھی شیرینی لب و لہجے میں تیرے
اتنا تو مزہ تیرا کسیلا نہ ہوا تھا
اب خالی پرندوں کی جھلک آتے ہیں لے کر
جنگل نہ ہوا تھا کوئی بیلا نہ ہوا تھا
میلے میں چلے آئے تو چڑھتا کہاں دریا
اپنے ہی کناروں کو جو میلا نہ ہوا تھا
کوچے کی لپک چلتے ہوئے سانسوں سے الجھی
نشّے میں جو رہ کر بھی نشیلا نہ ہوا تھا
دامن سے نکلتے ہیں جو نچڑے ہوئے احساس
پوری طرح بارش میں جو گیلا نہ ہوا تھا
اب آتا نہیں بازوؤں میں جسم ہی پورا
ملبوسِ خیالات یوں ڈھیلا نہ ہوا تھا
پہلے تو نہیں ایسا تھا پہلے تھا نہ ایسا
مرجھائی جھلک رنگ بھی پیلا نہ ہوا تھا
کب دام میں آ جاتی نہ تھیں اڑتی پتنگیں
کب بام پہ آنچل تیرا نیلا نہ ہوا تھا
ہم ہاتھ ہی ملتے رہے اک بار تو ملتے
دوبارہ ترے ملنے کا حیلہ نہ ہوا تھا

افضال نوید

Post a Comment