اردو شاعری میں نسائی لہجہ شاعری کوکئی جہت عطا کرتا ہے،ایک جہت تو   ہمیں متحدہ عرب امارات میں مقیم ڈاکٹر ثروت زہرہ کے ہاں نظر آتی ہے جہاں معاشرے میں پھیلی
ناانصافیوں خاص طور پر عورت کی بے قدری کے حوالے سے اظہار ملتا ہے۔   شاعری کی یہ
 جہت ڈاکٹر ثروت زہرہ کے ہاں شعور کا استعارہ ہے۔ڈاکٹر ثروت زہرہ کی یہ 
امیجری 
معاشرے کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے، عقل و فہم اور ادراک شرط ہے۔
بنت حوا ہوں میں یہ مرا جرم ہے
اور پھر شاعری تو کڑا جرم ہے
مجھ میں احساس کیوں ہو کہ عورت ہوں میں 
زندگی کیوں لگوں بس ضرورت ہوں میں 
میرا ہر حرف،ہر اک صداجرم ہے
مجھ میں احساس کیوں ہو کہ عورت ہوں میں 
زندگی کیوں لگوں بس ضرورت ہوں میں 
یہ میری آگہی بھی میرا جرم ہے
اور پھر شاعری تو کڑا جرم ہے
میں تماشا نہیں اپنا اظہار ہوں 
سوچ سکتی ہوں سو لائق دار ہوں 
میرا ہر حرف،ہر اک صداجرم ہے
اس کے برعکس،،وارفتگی،، کی شاعرہ ناز بٹ اپنی شاعری کے اجماع میں،،سرگوشی سے وارفتگی تک،، کے عنوان تلے اپنی شاعری کے بارے بہت کچھ کہا ہے جہاں اپنے من کی گہرائیوں کے نچوڑ کا ذکر ہے،غم کی شدید کیفیات کا اظہار ہے،وہیں ڈاکٹر ثروت زہرہ کے ہاں پائی جانے والی جہت کی بجائے ایک اور ہی جہت کا ذکر ہے اور وہ ہے عورت ہونے پر فخر۔وہ لکھتی ہیں 
،،اکثر سنتی ہوں تخلیق کار صرف تخلیق کار ہوتا ہے،مرد یا عورت نہیں۔۔یعنیgenderکی کوئی تخصیص نہیں لیکن میں ایک پل کے لئے بھی اپنے عورت ہونے کو نظر انداز نہیں کر پائی۔۔ مجھے فخر بھی ہے اپنے عورت ہونے پر۔۔۔،،
یعنی ڈاکٹر ثروت زہرہ اونچے سروں کا گیت ہیں تو ناز بٹ دھیمے اور مدھر گیتوں کا جھرنا ہیں۔اور اس جھرنے کی دھیمے دھیمے سروں کی ٓواز ان کے شعری اجماع میں جا بجا بکھری پڑی ہے۔میں ذاتی طور پر زنانہ اور مردانہ ڈبے کا قائل نہیں ہوں کیوں کہ شاعری مردانہ یا زنانہ نہیں ہوتی۔لیکن اگر تخلیق کار خود ایسا چاہے تو کیا کہہیے۔
ناز بٹ اپنی شاعری کومحبت کی شاعری کہتی ہیں،،میں بنیادی طور پر محبت کی شاعرہ ہوں، کومل اور لطیف جذبوں کی شاعرہ،۔۔۔ مجھے محبت ہے حسن سے، کسی معصوم بچے کی خوبصورت مسکراہٹ سے،پھولوں ست، خوشبو سے، نیم تاریک پہاڑی سلسلے اور رومان پرور خنک ہواوں سے،،، برف پوش پہاڑوں کی چوٹیوں سے، مجھے محبت ہے خزاں کے موسم میں درختوں سے گرے اداس پتوں کی چرچرایٹ سے،اپنے حصار میں لیتی بے اختیار کرتی سمندر کی نمکین ہواوں سے، مجھے محبت ہے سردیوں کی بارش سے، بند آنکھوں پر بارش کی پھوار نحسوس کرنے سے،اور۔۔۔ مساموں میں دھنستی چلی جانے والی سردی سے،،، کہ فطرت کا حسن اور محبت کی لطافت و سرشاری میرے ذوق جمالیات کی تسکین کرتے ہیں،،،اور ایسے میں شاعری اترنے لگتی ہے۔،،
محبت زندگی کی اعلیٰ ترین قدر ہے، اس کے ہزاروں درجے،ہزاروں قسمیں بلکہ سچ تو یہ ہے لا انتہا قسمیں ہیں۔ سچی محبت اٹل بھی ہوتی ہے اور حالات کے مطابق ہر لحظہ بدلتی بھی رہتی ہے۔سچی محبت ہی ہے جس کے ہوتے ہوئے ہر لحظہ زندگی کا حسن نت نئے سانچے میں ڈھلتاہے۔
یہ جو عیسائیت کے نزدیک God is love،یعنی خدا محبت ہے اسی محبت سے ہمارے قرآن مجید کا آغاز ہوتا ہے بسم اللہ الرحمنٰ الرحیم یعنی خدا کی سب سے اعلیٰ صفت اس کی رحمت ہے انسان پر بلکہ کائنات بھر پر۔اس رحمت کے اصل معنی کسی جابر طاقت کی کمزوروں سے رعائت کرنا نہیں بلکہ اس کے اصل معنی ہیں کہ خدائے کل ہر شے، ہر وجود سے محبت رکھتا ہے۔
پھر کیا محبت ہی اس کائنات کی تخلیق کا باعث نہیں؟
خدا کو ساری کائنات سے محبت ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ساری کائنات بھی اس سے محبت کرے۔
محبت ہی ہے جس نے زندگی تخلیق کی، محبت ہی ہے جس سے یہ کائنات زندہ و تابندہ ہے۔ جو اس کے ذرے ذرے میں جاری و ساری ہے۔
زمانہ اس کی خواہش میں ازل سے چور ہے جاناں 
محبت نور ہے جاناں 
محبت نور ہے جاناں 
ناز نٹ نے جدیدیت کو اختیار کرتے ہوئے اس فنی التزام کو ملحوظ رکھا ہے جو براہِ راست تجربے سے ماخوذ ہے۔اسی لئے ان کی نظموں میں جدید لمس کا اظہار توازن،نکھار اور صفائی لئے ہوئے ہے۔
کہیں وہ وصی شاہ کی سی رومانویت لئے ہوئے ہے۔
سنو تم دھوپ جیسے ہو
تمہارے جسم سے کرنیں ٹپکتی ہیں 
میں جب پلکوں سے یہ کرنیں اٹھاتاہوں 
تو میری آنکھ میں دنیا چمکتی ہے
میں ان چمکیلے لمحوں میں 
تمہارے ساتھ سایہ بن کے چلتا ہوں 
اورکہیں منیر نیازی کا اندازاپنائے ہوئے ہے۔
کسی غم کے سمندر میں اترنا ہو
کسی بھی عمر کے جانکاہ لمحے سے گذرنا ہو
کسی بھی امتحاں کے جلتے صحرا میں 
سفر کا بوجھ اپنے سر پہ دھرنا ہو
کسی آوارہ جگنو کے تعاقب میں 
دکھوں کی کرچیوں سے
راستوں کا پیٹ بھرنا ہو
ناز بٹ نے خود شناسی کے عمل کو اختیار کرکے اپنے تخلیقی عمل کو جلا بخشی اور اس کے نتیجے میں ان حسین تصورات، علامات اور لطیف احساسات کو جنم دیا جن سے ان کی نظموں کا سارا تارپور تیار ہوا ہے۔
ناز بٹ کی نظم جذبے کے غنائی اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ ناز بٹ کی شاعری خاص طور پر نظم میں محبت کے ارضی پہلو اور محبوب کے جسمانی وجود کا ایک خوبصورت امتزاج پیدا ہوا ہے۔ اس کے ہاں نظم کی محبت کو ایک کشادہ مفہوم عطا کرنے کی روش ابھری ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناز بٹ کو موسیقی سے ایک خاص لگاؤ ہے۔ ان کی نظم میں آہنگ صرف وزن کی ضرورتوں کا تقاضا نہیں بلکہ نظم کے باطنی جذبے سے پھوٹتا ہوا ایسا سریلا چشمہ ہے جو روح اور ذھن دونوں کو سیراب کرتا رہتا ہے۔ یہ بات انہیں دوسرے شاعروں سے ممتاز کرتی ہے۔
ناز بٹ کی نظمیں سراپا محبت کا اظہار ہیں۔ یہ محبت بدنی بھی ہے اور روحانی بھی۔
میرے ساحر 
تری بہکی، بھٹکتی خواب سی مخمور آنکھوں کے اثر نے
نواحِ جسم و جاں میں کیف و مستی کے
کچھ ایسے ساز چھیڑے ہیں 
کہ اک مدہوش سی لے پر
مرا تن رقص کرتا جا رہا ہے

۔۰۔

Post a Comment