جو تیرے ساتھ کسی بام پر گزارے تھے
گلال ہوتے ہیں مہتاب آہ بھرتے ہُوئے
گلاب سا کوئی چہرہ کسی دریچے میں
ٹھہر گیا میرے دل میں پکار کرتے ہوئے
وہاں بھی مجھ کو تری آنچ آن لیتی ہے
مَیں ڈوبتا ہوں کہیں اور سے ابھرتے ہوئے
بچھڑنے کا کوئی اندوہ دم پکڑتا ہے
قدم ستارہٗ شام و سحر پہ دھرتے ہوئے
کوئی بھی حالتِ دل ہم کو راس آتی نہیں
بگڑتے رہتے ہیں ہم ساتھ ہی سدھرتے ہوئے
میں کون کون سی چوکھٹ سے اب نہیں ملتا
وہ دیکھتا ہی نہیں ہے مجھے بکھرتے ہوئے

افضال نوید

Post a Comment