(خالد ندیم شانی  )

ناز بٹ ایک سنجیدہ فکر شاعرہ ہی نہیں بلند پایہ نثر نگار بھی ہیں ۔۔۔ ایک مدت سے شعر و ادب سے وابسطہ ہونے کے باوجود ان کا پہلا شعری مجموعہ " وارفتگی " ہمارے سامنے اب آیا ہے ۔۔۔
وارفتگی ناز بٹ کے مشاہدات و تجربات کا وہ آئینہ ہے جس میں ہم زندگی کو ان کی نگاہ سے دیکھیں گے ۔۔۔
شاعری زندگی کی وہ جامع دستاویز ہے جس میں معاشرتی ، معاشی و سماجی الغرض زندگی سے جڑے ہر شعبہ کے اغراض و مقاصد سے لے کر حدود و قیود تک کا آئین مرتب ہوتا ہے ۔۔۔
شاعر ایک منصب ہے اور اس منصب تک وہی پہنچتا ہے جسے زندگی کو محبت سے دیکھنا آتا ہے ۔۔۔ ناز بٹ مبارک


باد کی مستحق ہیں کہ زندگی بارے ان کا زاویہ ء نگاہ محبت ہی محبت ہے ۔۔۔
وارفتگی محبت کے الوہی پیغام کا عٙلٙم ہے ۔۔۔

چھپائیں کس طرح آنکھیں چمک محبت کی
ان آئینوں میں ہے ہر دم جھلک محبت کی

عجیب رنگ کسی کی نظر سے چھلکے ہیں
بدن میں پھیل رہی ہے دھنک محبت کی

وارفتگی کا اتنی وارفتگی سے اظہار اس سے پہلے میری نظر سے نہیں گزرا ۔۔۔ آپ بھی لطف لیجیے۔۔۔

ترا نصیب بنوں تیری چاہتوں میں رہوں
تمام عمر محبت کی ساعتوں میں رہوں

یہ زندگی کی حرارت ترے سبب سے ہے
میں لمحہ لمحہ جنوں کی تمازتوں میں رہوں

اے ابرِ وصل بٙرس اور کھل کے مجھ پہ برٙس
میں بھیگی بھیگی ہوا کی شرارتوں میں رہوں

محبتوں کی پھوار میں بھیگے یہ نغمے قاری کو سرشار کرتے ہوئے آگے بڑھنے اور محبت کی وسیع کائنات انھی آنکھوں سے دیکھنے کا شائق کرتے ہیں

یہ سفر خوشبو کا سفر ہے ۔۔۔ وارفتگی میں احساسات و محسوسات کی ہولی کھیلی گئی ہے۔۔ صفحہ در صفحہ رنگ آپ کو منتظر ملیں گے ۔۔۔

اک نا دیدہ احساس مری پوروں میں گُھلنے لگتا ہے
اک بند دریچہ حسرت کا خوابوں میں کُھلنے لگتا ہے
مرا مسیحا نامی نظم سے کچھ لائینیں دیکھیے

مرا مسیحا کسی صحیفے کی طرح دل کی زمیں پہ اترا ۔۔۔
میں اِس صحیفے کی آیتوں کو
بڑے تقدس سے اپنی آنکھوں سے چھو رہی ہوں ۔۔۔
مرے مسیحا کا نرم لہجہ مری سماعت کی ہر روش پر ۔۔۔
بہار بن کر اتر رہا ہے ۔۔۔
مرے مسیحا کا معجزہ ہے
کہ اس کی نظروں کی سات رنگی دھنک کو اوڑھے
میں روح تک جگمگا رہی ہوں ۔۔۔
&&&&

پہاڑی ندی کی طرح اپنے ساتھ بہا لے جانے کی مکمل صلاحیت رکھنے والی یہ شاعری روح تک کو سرشار کرتی چلی جاتی ہے ۔۔۔

وارفتگی کا بنیادی تھیسز جزبوں کا اعترافی بیان ہے ۔۔۔ لطف یہ رہا کہ یہ اعترافی بیان مشرقیت کی چلمن سے لگ کر دیا گیا ہے ۔۔۔ کہیں بھی محبت کا تقدس مجروح نہیں ہوا ۔۔۔
ناز بٹ نے اپنی شخصیت کے وقار کو شاعری میں بھی برقرار رکھا ۔۔۔ انھیں کہنے کا ہنر اپنے والدین سے ودیت ہوا جس کا اعتراف انھوں نے کتاب کے انتساب میں بھی کیا اور اپنی بات میں بھی ۔۔۔
نظم و غزل دونوں ہی وارفتگی کا حصہ ہیں اور دونوں پر ناز بٹ کو مکمل گرفت حاصل ہے مگر میرے نزدیک ناز بٹ جس جزباتی شدت سے نظم کہتی ہیں یہ ان ہی کا خاصہ ہے ۔۔۔
نظم محبت نور ہے جاناں کا ایک بند دیکھیے
زمانہ اس کی خواہش میں ازل سے چور ہے جاناں
محبت نور ہے جاناں
محبت نور ہے جاناں
رخِ ماہتاب سے روشن ۔۔۔ نگارِ خواب سے روشن
نظر میں کھلنے والے سبزہ ء شاداب سے روشن
ستاروں سے کہیں بڑھ کر چمک اس کے جلو میں ہے
جو آب و تاب اس میں ہے کہاں سورج کی ضو میں ہے
یہ نخلِ عشق پہ جیسے وفا کا بور ہے جاناں
محبت نور ہے جاناں
محبت نور ہے جاناں
####
وارفتگی کے صفحات پر زندگی کے سارے موضوعات بکھرے ہوئے ہیں ۔۔۔ درد و الم کے فسانے بھی ۔۔۔ سماجی شعور کے ترانے بھی ۔۔۔ کہیں "اندھے شہر کے لیے دعا" بن کر تو کہیں " بونے لوگ " کی صورت نظم ہو کر تو کہیں " الاماں الاماں " اور "کونج کا سفر" کی صورت جگر چیر دینے والے مناظر کو نظم کر دیا گیا ہے ۔۔۔

وارفتگی کو دیکھنے کے ہزار زاویے ہیں ۔۔۔ خوشی ، غم ، امید، یاس ، رسائی ، نارسائی ، ملن ، جدائی ، کسک ، چھبن، زماں ، مکاں ۔۔۔ جس زاویے سے آپ مرضی دیکھیے وارفتگی کو محبت ہی محبت پائیں گے ۔۔۔


میں خوش فکر شاعرہ کے ادبی مستقبل کے لیے دعا گو بھی ہوں اور پر امید بھی ۔۔۔ اس کی پہلی اڑان ہی بتاتی ہے کہ وہ آسمان ضرور چھوئے گی

####

Post a Comment