کسی خسارے کا امکان دھیان میں بھی نہیں 
وہ مال ڈھونڈتا ہوں جو دکان میں بھی نہیں
زمین تھک گئی دنیا کا بوجھ اْٹھائے ہوئے
تو کیا ذرا سی جگہ آسمان میں بھی نہیں
بس ایک پل کے لیے تھک کے بیٹھنے والے
یہ ذاِئقہ کسی اونچی اڑان میں بھی نہیں


نہ جانے کیسے بدلنے لگے ہوا کے مزاج
خلا ہے‘ میں ہوں‘ کوئی درمیان میں بھی نہیں
وہ ایک میں تھا‘ جو مجھ سا تھا‘ لیکن اب وہ بھی
کہیں نہیں ہے‘ زمان و مکان میں بھی نہیں
ہا ہوا کوئی فقرہ‘ لکھی ہوئی کوئی بات
مرے خلاف تو اُس کے بیان میں بھی نہیں
بدلنا چاہوں جو دنیا تو کس طرح بدلوں 
قلم میں بھی نہیں طاقت زبان میں بھی نہیں
حصار ِ بے خبری میں بھی رہ کے میں اشفاق
وہ سوچتا ہوں جو حدّّ ِ گمان میں بھی نہیں

Post a Comment