جذبے ـــ کسی ٹکسال میں ڈھالے نہیں جاتے
سِکّے یہ ــــــ ہواؤں میں اُچھالے نہیں جاتے
پلکوں کی مُنڈیروں پہ اُتر آتے ہیں چُپ چاپ
غم ایسے پرندے ہیں ـــ جو پالے نہیں جاتے
لوگوں کی تو ـــــــ فریاد پہنچتی ہے فلک پر
تُجھ تک مری آہیں ـــ مرے نالے نہیں جاتے

جب تھا تو بہت پُختہ تھا اِک شخص سے رشتہ
ٹُوٹا ہے تو ـــ اب ٹُکڑے سنبھالے نہیں جاتے
کچھ لوگوں کی ہر دور میں پڑتی ہے ضرورت
کچھ  لوگ ـــ کبھی دِل سے نِکالے نہیں جاتے
اب تک  ــ تری ذُز دیدہ نِگاہی کے ہیں چرچے
اب تک ــ تری آنکھوں کے حوالے نہیں جاتے
کیوں چاند کو پڑتی ہے ـــــ بناوٹ کی ضرورت
کیوں چاند کے اطراف سے ـــ حالے نہیں جاتے
جس دِن سے ـــــــ نگاہوں پہ ترا رستہ کھلا ہے
اُس دِن سے مرے پیروں کے چھالے نہیں جاتے
اب تک ــــــــــــــــ وہی منظر ہے سر ِ راہ ِ تمنّا
تاریکی میں ہمراہ ــــــــــــــــ اُجالے نہیں جاتے
لوگوں نے تو لکھ ،  لکھ کے سیہ کر دیۓ دفتر
ہم سے تو ـــــــــــ یہ دو شعر نِکالے نہیں جاتے

Post a Comment