ترے آسماں سے عذاب کیوں نہیں ٹوٹتا
مری نیند اور مرا خواب کیوں نہیں ٹوٹتا
ترا ذکر کرتا ہوں صبح وشام نماز میں
یہ طلسم اجر وثواب کیوں نہیں ٹوٹتا
مرے خدوخال بکھرتے کیوں نہیں راہ میں
ترے آئینے کا سراب کیوں نہیں ٹوٹتا
ترے لفظ لفظ کی منتظر ہیں سماعتیں
لب حسن تیرا حجاب کیوں نہیں ٹوٹتا
کڑے موسموں کا ہدف ہوں میں تو بتائیے
مری شاخ پر سے گلاب کیوں نہیں ٹوٹتا

Post a Comment