دن پہ ڈالی نہیں نظر میں نے 
شب گزاری سحر سحر میں نے
اِس سے پہلے کہ زخم بھر جاتا 
پھینک دی زیست کاٹ کر میں نے
سچ جو پوچھو تو وقت ہی کاٹا 
عمر تو کی نہیں بسر میں نے


پہلے اپنے اصول توڑوں گا 
کوئی ترمیم کی اگر میں نے
ایک دیوارِ زندگی ہی تھی !
جس میں پیدا کیے ہیں در میں نے
یہ سحرتاب جو ہوا ہوں میں 
تجھ کو سوچا ہے کس قدر میں نے

Post a Comment