اچھا ہوا کہ آنکھ کی برسات رک گئی 
شاید کوئی دعا تھی کہ اک بات رک گئی 
سیکھا زمانے بھر سے کہ جینا ہے کس طرح 
جب آگیا ہنر تو میری ذات رک گئی 
رشتوں میں پہلے جیسی محبت نہیں رہی 
صدیوں سے چل رہی تھی وہ سوغات رک گئی 

وہ جن کو حادثات نے لمحوں میں کھا لیا 
اُن کے لئے تو گردش حالات رک گئی 
انسان گھِر گیا ہے پریشانیوں کے بیچ 
جانے کہاں خوشی کی وہ بارات رک گئی 
مالک انہیں نوید ملے بن کے روشنی 
جن کے سروں پہ غم کی کوئی رات رک گئی

Post a Comment