نوید ملک
ہوائیں آگ روتی ہیں
فلک برسا رہا ہے دھوپ کے کوڑے
درختوں کی نگاہیں نوچتی ہیں اب پرندوں کو
گھڑی کی سوئیاں تلوار بن کر وقت کے سینے کو زخمی کر رہی ہیں
نئے مذہب بنائے جا رہے ہیں
شرابی فلسفے ایجاد کرتا ہے تو زانی دین پر تہمت لگاتا ہے
ہماری گردنوں کر راستے بھی گھورتے ہیں
بشر لاشوں کو بوتا ہے
زمیں نوحے اُگاتی ہے
فرشتے نیکیوں کی فائلوں کو بند کر کے ریسٹ کرنے لگ گئے ہیں
صحافی اور ہر اخبار کا بزنس
گلی کوچوں تلک پھیلا ہوا ہے
ہر اک پارٹی کا لیڈر انقلابی بوریوں میں مفلسوں کے خواب جکڑے
کورٹ کے باہر 
کرپشن تھوکتا ہے
دھماکے ہو رہے ہیں
بتاو تو سہی خود کش کی مسجد، منڈیوں، دربار، ہر بازار اور اسکول سے کیا دشمنی ہے
یہ خود کش بھی گلوبل دائرے کا ایک چکر ہے
کہ جس کی آنکھ میں مظلوم چبھتا ہے

Post a Comment