بسمل صابری
وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
وہی ستارہ شب غم کا اک ستارہ ہے
وہ اک ستارہ جو چشم سحر میں رہتا ہے
جو میرے ہونٹوں پہ آئے تو گنگناؤں اسے
وہ شعر بن کے بیاض نظر میں رہتا ہے
گزرتا وقت مرا غم گسار کیا ہوگا
یہ خود تعاقب شام و سحر میں رہتا ہے
مرا ہی روپ ہے تو غور سے اگر دیکھے
بگولہ سا جو تری رہ گزر میں رہتا ہے
نہ جانے کون ہے جس کی تلاش میں بسملؔ
ہر ایک سانس مرا اب سفر میں رہتا ہے







Post a Comment