قمر رضا شہزاد
پانیوں پر قدم جمانے لگا
میں نیا راستہ بنانے لگا
چاند اُترا مرے دریچے میں
اور پھر میں بھی جگمگانے لگا
عشق تو کب کا ہو چکا متروک
تُو یہ سِکہ کہاں چلانے لگا
میں بھی ہوں کوئی فالتو سامان
تُو مجھے بھی کہیں ٹھکانے لگا
مرے ہاتھوں میں پھول تھے شہزاد
جب عدو میرا گھر جلانے لگا

Post a Comment