پانی کے نیچے سفر


رات کا سماں ہو،سمندر کا کنارہ ہو،لکڑی کا فرش ہو،جس کے  باہم جڑے ہوئے تختوں کی باریک باریک درزوں سے سمندر کا پانی اپنی جھلک دکھا رہا ہوسمندر کے پانی کے اس پار آسمان سے باتیں کرتی عمارتوں کی کھڑکیوں سے باہر جھانکتی روشنیاں سمندر کے ہلورے کھاتے پانیوں میں اٹکھیلیاں کر رہی ہوں اور اس بورڈواک پر بنے سٹیج پر سیر کے لئے آنے والے فنکار سازوآواز کی محفل سجائے ہوئے ہوں تو اس سحر انگیز ماحول میں کھو جانے کو دل کرتا ہے۔
نیو جرسی اور نیویارک ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ریاستیں ہیں بالکل اسی طرح جیسے میری لینڈ،واشنگٹن اور ورجینیا ہیں،وہاں فاصلوں کو چونکہ وقت کے پیمانے پر ماپا جاتا ہے اس لئے نیویارک سے نیوجرسی پون سے ایک گھنٹہ کی دوری پر ہیں۔

نیو جرسی میں رابعہ کے بھائی سلمان کے دوست کی رہائش ہے۔عدیل اور رابعہ اس سے فون پر رابطے میں رہتے ہیں۔نیویارک میں آنے کیبعد عدیل نے عمر سے کئی بار بات کی اور مختلف قابلِ دید مقامات کے بارے میں معلومات حاصل کیں، وہ چونکہ یہاں کافی عرصے سے ہے اس لئے اس کی معلومات بڑی وسیع ہیں۔ٹائمز سکوئر کی بتیاں اور پرشور ہجوم سے دل گھبرایا تو عدیل کے پوچھنے پر عمر نے نیو جرسی میں سمندر کے کنارے اس پر سکون جگہ پر کچھ وقت گذارنے کا مشورہ دیا۔
اب ہم نیویارک سے نیو جرسی جا رہے تھے،عنایہ کو دلچسپی یہ تھی کہ رستے میں ہم ٹنل سے گذریں گے۔وہ ہر دو  منٹ کے  بعد پوچھ لیتی تھی،،ویئر از ٹنل،،۔عدیل ہر بار اسے کہتا تھا بس ابھی آتی ہے ایک بگ بگ ٹنل اور عنایہ گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتی تھی۔ہم اسی طرح باتیں کرتے ہنستے  ہنساتے چلے جا رہے تھے کی سامنے لنکن ٹنل آ گئی۔عدیل نے عنایہ سے کہا،، لک عنایہ ووئی آر انٹرنگ ان آ بگ بگ ٹنل،،۔عنایہ آنکھیں پھاڑ کر سامنے دیکھنے لگی کیونکہ ٹنل میں سے گذرنے کا اس کا تو پہلا تجربہ تھا۔
عدیل نے بتانا شروع کیا کہ اس ٹنل کے اوپر سے دریا گزرتا ہے اب ہم پانی کے نیچے سے گذر رہے ہیں۔ٹنل مکمل روشن تھی،یہ ٹنل تین راستوں پر مشتمل ہے۔ہر سڑک کی چوڑائی 21.6فٹ ہے۔بیرونی ڈایا میٹر31فٹ اور سڑک سے دریا کی اونچائی97فٹ ہے۔یہ تقریباََ ڈیڑھ میل لمبی تین سرنگیں ہیں۔ان تینوں کی لمبائی کچھ مختلف ہے کیونکہ یہ اونچے نیچے پہاڑی علاقوں سے گذرتی ہیں۔سنٹرل ٹیوب جس میں سے ہم اس وقت گذر رہے ہیں 8,216فٹ لمبی ہے اور اسے سن 1937میں تعمیر کیا گیا۔اس کے بعد نارتھ ٹنل ہے جس کی لمبائی7,482فٹ ہے اور اسے سن1945میں تعمیر کیا گیا۔اور تیسری ہے ساؤتھ ٹیوب جسے سن1957مین ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا۔اس کی لمبائی8,006فٹ ہے۔

دریائے ہڈسن کے نیچے سے اس لنکن ٹنل کے علاؤہ ایک اور ٹنل بھی نکالی گئی ہے جسے ہولینڈ ٹنل کہتے ہیں۔
عدیل ذرا چپ ہوا تو میں نے ہنستے ہوئے اسے کہا کہ تم نیویارک پہلے تو کبھی آئے نہیں لیکن بتا ایسے رہے ہو جیسے نیویارک میں ہی رہتے ہو اور روز یہیں سے گذرتے ہو۔
عدیل شوخ سے لہجے میں بولا،،گوگل بابا زندہ باد،جو پوچھو سب بتاتا ہے،راستہ بتانے کے لئے،،ماسیاں،، رکھی ہوئی ہیں جو گٹ پٹ کرتے ہوئے راستہ بتاتی رہتی ہیں اور پھر میرا تو فیلڈ ہی یہ ہے،،
،،تو اگر تیرا یہ گوگل بابا سب کچھ بتاتا ہے تو عنر سے کیوں پوچھ رہے تھے،،میں بھی پوچھ لیا۔
،،وہ۔۔وہ تو جگہ کا نام پتہ پوچھا تھا،اب میں نے جگہ کا نام پتہ گوگل بابا کو دے کر معلومات مانگیں تو گوگل بابا نے سب کچھ اگل دیا میرے سامنے،ایک سٹروک کی مار ہے گوگل بابا،سب کچھ اگل دیا،،عدیل بولا
،، اچھا  ٹھیک ہے،بڑا گنی ہے تمہارا یہ گوگل بابا۔اور کیا بتایا اس نے میں نے پوچھا
،،اس کا کہنا ہے کہ نیویارک کی آبادی بڑھتی جا رہی تھی اسی رفتار سے ٹریفک بھی بڑھ کر مسئلہ بن رہی تھی اس لئے کروڑوں ڈالر خرچ کر کے یہ ٹنل بنائی گئی۔اس ٹنل کے ذریعے نیویارک اور نیو جرسی کی ٹریفک کو کنٹرول کیا گیا۔یہ ٹنل مین ہاٹن اور نیو جرسی کے درمیان بڑا اہم رابطہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس ٹنل سے روزانہ ایک لاکھ گاڑیاں گذرتی ہیں،، عدیل نے جواب دیا
میں سوچ میں پڑ گیا کہ ان سرنگوں کو بنے ستر اسی سال ہو گئے ہیں اور یہ ویسی کی ویسی ہیں،ایک ہمارے ہاں بنائے جانے والے پل اور سڑکیں ہیں جو اتنی جلدی ختم ہوتی ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا،ابھی یہی کوئی تیس سال پہلے کی بات ہے پتوکی کا برج بن رہا تھا اور دس بارہ سال بعد ہی اس میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی تھی اور گذشتہ تین سالوں میں یہ پل آثارِ قدیمہ کا نقشہ پیش کرنے لگا اور اس کی جگہ نیا پل بنایا گیا جو پہلے سی سال ایک جانب سے بیٹھ گیا،
خیر
باتوں ہی باتوں میں ہم لنکن ٹنل سے نکل کر نیو جرسی میں پہنچ گئے،وہاں جا کر عمر کے بتائے ہوئے پاکستانی ہوٹل میں کھانا کھانے جانے کے لئے ہوٹل کے سامنے پبلک پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے سڑک کراس کی اور دوسری جانب واقع ہوٹل میں جا کر بیٹھ گئے،شاید کھانا ہی بہت لذیز تھا یا ہمیں بہت بھوک لگی تھی اس لئے سیر ہو کر کھانا کھایا۔
ٹائمز سکوئر کی روشنیوں اور وہاں کے اودھم سے نکل کر یہاں ایک سکون کا احساس ہو رہا تھا،اب کھانا بھی کھا لیا تھا اس لئے اس مقام کی طرف چلے جہاں سے مین ہاٹن رات کی تاریکی میں کچھ زیادہ ہی خوبصورت نظر آتا ہے۔اس جگہ پہنچنے سے پہلے ہمیں رکنا پڑا کہ وہاں ٹرین ٹریک تھا اور دور سے ٹرین سیٹی بجاتی آ رہی تھی۔ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی گذر کر پلیٹ فارم پر جا کر کھڑی ہو گئی۔اور ہم نے بھیریلوے لائن کراس کر کے سامنے نظر آنے والے بورڈ واک کی جانب  قدم بڑھا دئیے۔وہاں بالکل ویسا ہی سماں تھا جیسا عمر نے فون پر بتایا۔ 
رات کا سماں تھا،سمندر کا کنارہ تھا،لکڑی کے باہم جڑے ہوئے تختوں کا بورڈ واک تھا جس کی باریک باریک درزوں سے سمندر کا پانی اپنی جھلک دکھا رہا تھاچلتے چلتے عدیل نے اپنی ماں کو درزوں سے جھلکتے پانی سے ڈرایا کہ ہم سمندر پر چل رہے ہیں۔وہاں ایک جانب سٹیج پر پہلے سے آئے ہوئے لوگوں کا قبضہ تھا جو موسیقی کے مختلف آلات کے ساتھ دھیمی دھیمی موسیقی بکھیرنے کی کوشش کر رہے تھے جو گٹار کی تاروں پر زوردار انگلی لگنے سے بے سری ہو جاتی تھی۔ان فنکاروں کے سامنے لکڑی کے وسیع میدآن میں بچے کھیل رہے تھے۔عنایہ بھی دادی کا ہاتھ چھڑا کر ان میں شامل ہو گئی،دادی بھی پیچھے بھاگنا چاہ رہی تھیں کہ عدیل نے روک دیا۔ہم سامنے سمندر کے کنارے جا بیٹھے کہ زیادہ سے زیادہ عنایہ یہیں آئے گیتو ہم پکڑ لیں گے۔
سامنے مین ہاٹن کی عمارتوں کی کھڑکیوں سے باہر جھانکتی روشنیاں سمندر کے ہلورے کھاتے پانیوں میں اٹکھیلیاں کر رہی تھیں،یہ بڑا دلکش نظارہ تھا۔دائیں جانب دور بہت دور مجسمہِ آزادی کی دھندلی سی جھلک نظر آ رہی تھی۔ کیا سحر انگیز منظر تھا۔کوئی کوئی جگہ ایسی ہوتی ہے جس کا سحر انسان کو جکڑ لیتا ہے اور یہ بھی کچھ ایسی ہی جگہ تھی۔

Post a Comment