انور زاہدی
کبھی تتلی کے پر 
شمع کی لو میں 
خاکستر دیکھے
جنُون عشق میں 
کیا طائر شب کو 
کبھی دم توڑتے دیکھا
کسی درگاہ کے در پہ
چھلکتے آنسووں کو آنکھ میں 
اور کانپتے دست دعا دیکھے
سڑک پر گُم کبھی 
جیسے بگُولہ ہو
کسی پاگل کو اپنی دھُن میں
محو رقص بھی دیکھا
برستے مینہ کی بوچھار میں
بارش کے قطرے کو
زمیں کی خاک میں پیوند ہوتے
زندگی درگور بھی دیکھی
کبھی ساون میں 

گھر جلتا ہوا دیکھا
کبھی کیا فصل گُل میں 
پیڑ دیکھے جو برہنہ ہوں
کبھی سر کو چھپانے کے لئے
بس سائیباں کی حسرت آزردہ
لے کے اپنی آنکھوں میں 
کسی بے گھر کو بھی دیکھا
دھڑکتے دل کو چاہت میں 
کبھی رُکتے ہوئے دیکھا
انور زاہدی

Post a Comment