انور زاہدی
چلی ہوا تو کوئی یاد آ گیا پھر سے
اُڑی جو خاک تو آ نسو رُلا گیا پھر سے
 ہوا کی طرح لہکتا تھا صحن گُل میں وہ
مہکتے سانس کو جھونکا بنا گیا پھر سے
ہر ایک دل میں تھا روشن چراغ جاں کیطرح
ہُو ا یہ کیا کہ دئیے سب بجھا گیا پھر سے
 یہ علم تھا کہ ہے پت جھڑ کی رُت بہت ظالم
اُ ڑے گی خاک خبر یہ سُنا گیا پھر سے
 فضا اُ د اس ہے روشن نہیں کہیں بھی چراغ
کہ جیسے شام غریباں لگا گیا پھر سے
 رہے گا یاد و ہ انور زماں مکاں کو بھی
اُ ٹھے گا جب کوئی طوفاں بتا گیا پھر سے

Post a Comment