اجنبی شہر میں عید

پاکستان سے ہم بائیس روزے گذار کر چلے تھے،باقی روزے یہاں بچوں کے ساتھ رکھے لیکن یہ روزے بڑے پھیکے پھیکے تھے،نا اذان کی آواز،نا نزدیک کوئی مسجد،بس فون پر سیٹ کی ہوئی واشنگٹن کے وقتِ سحرو افطار پرابھرنے والی اذان ربورٹ کی طرح سحری اور افطاری کرا دیتی تھی،سچ مانیں اپنا پاکستان بہت یاد آیا،یوں ایک ہفتہ اسی حالت میں گذرا اور پھر عید کا دن آ پہنچا۔پاکستان میں تو عیدبڑے اھتمام سے منائی جاتی ہے لیکن یہاں وہ نظارے کہاں،چاند رات کو دو آپشن تھے ایک تو یہ کہ چاند رات میلے میں چلے جاتے،جہاں کھانے پینے کے سٹال لگے ہوتے اور پاکستان یا ہندوستان کا کوئی تھکا ہوا گلوکار آپ کو بوریت کی انتہا کو پہنچا دیتا  دوسرا آپشن عدیل نے یہ ہمارے سامنے رکھا کہ چلیں واشگٹن ڈی سی چلتے ہیں جہاں امریکہ کے کچھ مقامات  دیکھ لیں گے،ہمیں چاند رات میلے میں تو کوئی دلچسپی نہیں تھی سو فیصلہ یہ طے پایا کہ واشنگٹن کی سیر کی جائے
واشنگٹن ڈی سی میں  عدیل نے موونومنٹ کے نزدیک پارکنگ ایریا تلاش کرکے گاڑی پارک کی۔ امریکہ کا کوئی بھی شہر 

ہو پارکنگ تلاش کرنا سب سے مشکل کام ہے۔  سڑک سے موونومنٹ تک خاصی چڑھائی ہے،وہاں پہنچ کر عدیل نے ہمیں ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس جانب امریکہ
کے ایک اہم صدر ابراہم لنکن کی سمادی ہے، 
میں
نے پوچھا کہ کیا وہ یہاں دفن ہے،اس نے بتایا کہ نہیں دفن تو وہ کسی قبرستان میں ہی ہو گا یہاں اس کا دیوقامت مجسمہ رکھا ہوا ہے،یہ اس کی یادگار ہے۔موونومنٹ سے چاروں جانب ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر یادگاریں ہیں،ابراہم لنکن میموریل کے بالمقابل یو ایس کیپٹل ہے جسے غلط العام میں وائیٹ ہاوس سمجھا جاتا ہے لیکن یہ امریکی حکومت کے قانون ساز ادارے کانگرس کی اسمبلی ہے،یہ عمارت دو سو پندرہ سال پرانی ہے اس عمارت کی تعمیر 1793میں شروع ہوئی اورسن1800میں اسے استعمال کے لئے کھول دیا گیااسے روسل سینٹ آفس بلڈنگ بھی کہا جاتا ہے۔سن1800میں جب یہ عمارت مکمل ہوئی تو اس وقت اس عمارت کے اوپر نظر آنے والا گنبد تعمیر نہیں ہوا تھا بعد میں اس کے توسیعی منصوبے کے تحت اس میں ایک بڑے گنبد(ڈوم) کا اضافہ کیا گیا۔اس عمارت کو نیوکلاسیکل سٹائل میں سفید بیرونی منظر کے ساتھ تعمیر کیا گیا۔اس عمارت کے اگرچہ دو فرنٹ ہیں لیکن اس کا مشرقی فرنٹ ہی وفود کے استقبال کے لئے استعمال ہوتا ہے۔یہ عمارت گذشتہ دو سو سال میں کئی بار تباہ ہوئی لیکن اس کی ساتھ ساتھ مرمت  اور تزئین و آرائش کا کام جاری رہتا ہے۔اب بھی ایسا ہی کچھ کام ہو رہا ہے جس کے لئے اس کے گنبد کے ارد گرد سٹیل کے مچان اور سہارے لگائے گئے ہیں سن2014سے شروع ہونے والا یہ کام سن2017کے اوائل میں مکمل ہو سکے گا۔

عدیل کو یہاں آئے چار پانچ سال ہو گئے ہیں اس لئے اسے اب یہاں کے بارے میں کافی معلومات ہیں۔ جب وہ یہ سب کچھ مجھے بتا چکا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اگر یہ وائیٹ ہاوس نہیں ہے تو وائیٹ ہاوس کدھر ہے،موونومنٹ پر کھڑے کھڑے اس نے کہا کہ دو اطراف کا تو میں نے آپ کو بتا دیا اب وہ تیسری جانب دیکھئیے وہ رہا وائیٹ ہاوس،درختوں کی اوٹ سے ایک سادہ سی عمارت اپنی ہلکی سی جھلک دکھا رہی تھی ا ور چوتھی طرف امریکہ کے تیسرے صدر  جیفرسن کی سمادی نظر آ رہی تھی،مجھے وائیٹ ہاوس دیکھنے کا شوق تھا لیکن رات کافی ہو گئی تھی اور اگلے روز عید تھی اس لئے ہم نے واپسی کی راہ لی۔
گھر پہنچ کر ہمارا چائے کا مطالبہ زور پکڑ گیا اس لئے خواتین آتے ہی کچن میں چلی گئیں۔اور عدیل بتانے لگا کہ یہاں عید کی نماز کے تین ٹائم ہیں،ایک صبح سات بجے،دوسرا  ساڑھے دس بجے اور تیسرا ساڑھے گیارہ بجے۔اب ایسا ہے پاپا،عدیل نے کہا کہ آفس سے آنے کے بعد ابھی ہم واشنگٹن کا چکر لگا کر آئے ہیں۔ اور میں بہت تھک گیا ہوں سات بجے کے لئے پانچ بجے اٹھنا پڑے گا جو میرے لئے ممکن نہیں ہے اس لئے ایسا کرتے ہیں ساڑھے دس بجے والی نماز پڑھ لیتے ہیں،میں نے کہا چلو ٹھیک ہے،کہاں ہوتی ہے نماز،مسجد کدھر ہے،یہاں مسجد تو نہیں ہے،مسلم کیمونٹی کوئی ہال کرایہ پر لے لیتی ہے اور وہاں نماز کی ادائی ہوتی ہے۔یہاں سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر ورجینیا میں مسلم کیمونٹی والوں نے عید کی نماز کا انتظام کیا ہے،اور بھی ایک دو جگہ ہے لیکن ہم  وہیں پڑھیں گے وہاں احرار بھائی وغیرہ بھی آ جائیں گے،مجھے نام تو معلوم نہیں تھا میں نے پوچھا یہ احرار کون؟۔عدیل نے کہا آپ شازیہ باجی کو جانتے ہیں نارابعہ کی کزن جو یہاں ہی ہوتی ہیں،میں نے ہاں میں سر ہلا دیا،تو احرار بھائی ان کے میاں ہیں، اوہ اچھا،میں نے کہا۔
میری لینڈ،واشنگٹن اور ورجینیا،راولپنڈی اسلام آباد کی مانند جڑواں اسٹیٹس ہیں۔عدیل میری لینڈ کے شہر سلور سپرنگ میں واشنگٹن کے بارڈری علاقے میں رہتا ہے وہاں سے پہلے واشگٹن میں داخل ہوتے ہیں اسے کراس کرتے ہوئے ورجینیا پہنچ جاتے ہیں انٹرسٹیٹ ہائی نمبر495ان اسٹیٹس کو ملانے والی شاہراہ ہے۔
عید کے روز ہم تقریباََ ساڑے نو بجے گھر سے نکلے اور اس ہال میں پہنچ گئے جہاں نماز کا اھتمام تھاوہاں لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا جس سے لگ رہا تھا کہ واقعی عید ہے،ایک بات جو میں نے محسوس کی کہ لوگ پکنک منانے کے سے انداز میں وہاں آئے ہوئے تھے،مرد،عورتیں،بچے سبھی وہاں تھے،زیادہ تر لوگ مغربی لباس میں ہی تھے لیکن بہت سی فیملیز پاکستان کے قومی لباس میں بھی تھیں جن میں ہم بھی شامل تھے،آٹھ دس دن کے بعد شلوار کرتے میں امریکہ میں بھرنا اچھا لگ رہا تھا
ہال کے اگلے حصے میں مردوں کا انتظام تھا درمیان میں ایسے افراد کے لئے جو بیٹھ کر نماز ادا نہیں کر سکتے،کرسیوں کا انتظام تھا پیچھے عورتیں نماز کے لئے موجود تھیں۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ تھا لیکن عید کی نماز پڑھنے کا مزا اپنے پاکستان میں ہی آتا ہے یا ہمیں پاکستان میں ادا کی جانے والی نماز کا انداز پسند ہے،یہاں  جماعت کھڑی کرنے سے پہلے خطبے کی بجائے مسلم کیمونٹی کے لئے کام کرنے والے خواتین وحضرات کے تعار ف کا ایک سلسلہ ہوا،جو صفوں کے سامنے قطار میں کھڑے تھے،پھر مختلف  اعلانات کئے گئے اور پھر جماعت کھڑی کر دی گئی۔
پاکستان سے امریکہ آ بسنے والی اداکارہ ریما بھی خواتین والے حصے میں موجود تھی،جب ہم نماز کے بعد وہیں ایک حلال ریستوران میں لنچ کرنے جا رہے تھے تو ہماری بہو نے ہمیں بتایا۔بڑی سادہ سی لیکن اچھی لگ رہی تھی ریما اس نے بتایا۔
ریستوران میں احرار  اور شازیہ نے منع کرتے کرتے نجانے کیا کچھ منگو ا لیا۔
کھانے کے بعد سلفیوں کا ایک دور چلا،یہ سیلفی کلچر نجانے ہم میں کہاں سے آ ٹپکا ہے۔ 

Post a Comment