افتخار شفیع
کمال اے دمِ وحشت کمال ہو گیا ہے
ہمارا خود سے تعلق بحال ہو گیا ہے
یہ کس دیار میں آ کر بسے ہیں ہم کہ جہاں
سفر کا ذکر بھی وجہِ ملال ہو گیا ہے
حصارِ ریگ میں برسوں جلا تھا مرا وجود
سو ایک دشت مرا ہم خیال ہو گیا ہے

یہ بے دریغ زمانہ ہے سو کہیں کس سے
بچھڑ کے اُس سے ہمارا جو حال ہو گیا ہے
یہ کیسی تیز ہوا چل رہی ہے گلیوں میں
چراغ لے کے نکلنا محال ہو گیا ہے

Post a Comment