انور زاہدی
قفس کھُلا تو بہاروں کا سا سماں دیکھا
فضا میں نُور کا بہتا ہوا جہاں دیکھا
طلسم خواب سے راہ نجات میں پہنچا 
نظر کے سامنے اک بحر بیکرا ں دیکھا
کمال رُت تھی گھنے بن تھے ہرے بیلے تھے
ہرے زمردیں رنگ میں رنگا جہاں دیکھا
صدا پہ مُڑ کے جو دیکھا عجیب منظر تھا
نہ کوئی شخص وہاں نہ کوئی مکاں دیکھا
تری صدا بھی نہیں آئی نہ دیکھا تُجھ کو
مگر یہ لگتا ہے تُجھ کو یہاں وہاں دیکھا
ہے فصل عشق تو لازم ہے رقص میں ہو ہوا
اُسے میں دیکھوں جسے پہلے لامکاں دیکھا

Post a Comment