اُس کے سفید پروں تلے ریت تھی؛
تو یوں اُس قصّے کا آغاز ہوا، جس نے کنک کوٹنے کی عظیم دَھم دَھم کو جنم دیا۔
ایک شاہ کار قصّہ، جس نے ایک ہندوستانی نقاد کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ اردو ناول کا مستقبل اب لاہور سے وابستہ ہے۔ لاہور جہاں اِس قصّے کا خالق بستا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ
مستنصر حسین تارڑ
لاہورتہذیب کا مرکز۔ علم و ادب کا گہوارہ۔ مگر میرے لیے لاہور فقط پرانے فیملی البم کی اُن بے رنگ تصاویر تک محدود تھا، جن میں شاہی قلعے، مینار پاکستان اور شالامار باغ کے سامنے میں خود کو موجود پاتا ہوں۔ اور اُن تصاویر میں اتنا کم سن ہوں کہ کچھ یاد نہیں رکھ سکتا جلد ان مناظر کو بھول جاﺅں گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔
لاہور برسوں میرے لیے فقط بے رنگ، بے بو فیملی البم تک محدود رہا، مگر پھر ادب کی دنیا میں ایک واقعہ رونما ہوا۔ ایک انوکھی گھڑنت، جس سے تبدیلی کا پہیا چلا۔ لاہور نے یک دم نئی صورت اختیار کر لی۔ ایک نئی وابستگی کا میرے بھیتر جنم 
ہوا۔

لاہور اب میرے لیے ایک شخص تھا۔ ایک قصّہ گو۔
رواں برس، جب پیشہ ورانہ ذمے داریاں ایک ادبی کانفرنس کے سلسلے میں لاہور لے گئیں — اور یہ پہلا موقع تھا، جب میں نے شعوری حالات میں خود کو وہاں موجود پایا — تو دل میں ایک خواہش تھی۔ لاہور دیکھنے کی خواہش نہیں۔ قطعی نہیں، بلکہ اُسے دیکھنے کی خواہش، جس سے مجھ میں سانس لیتا قاری جُڑچکا تھا۔
کانفرنس کے آغاز سے قبل دیے جانے والے عشائیے میں وہ نہیں پہنچا حالانکہ وہ مدعو تھا، مجھے کچھ اور انتظار کرنا تھا۔
دوسرے دن کا سورج طلوع ہوا۔ پُرسکون ہال میں اجلاس جاری تھا۔ اور تب میں نے اُسے دیکھا۔
وہ بوڑھا ہوگیا تھا۔ چند دانت گر گئے۔ بہت سے بال سفید ہوگئے مجھے وہ توقع سے زیادہ پُراسرار اور تروتازہ محسوس ہوا۔
تو میں نے اُسے دیکھا (گو میں اُسے پہلے بھی دیکھ چکا تھا)، اور اُسے سنا، (گو پہلے بھی سن چکا تھا)، اور اُس آواز کو اتنا ہی جوان پایا، جتنی پہلے تھی۔
مقرر وقت پر ہم جمگھٹے سے پرے، اس کے مداحوں سے دور، پنج ستارہ ہوٹل کے ایک پُرسکون گوشے تک پہنچ گئے، جہاں میز پر ہوسے سارا ماگو کا ایک ناول دھرا تھا۔ ہوسے سارا ماگو، جسے پڑھ کر اُس نے اپنی کتابیں جلا دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اور مجھے صدمہ پہنچا تھا کہ ان میں وہ ناول بھی تھا، جو پاروشنی کا سراپا تھا۔
ہوسے کے ناول کے ساتھ ”ڈاکیا اور جولاہا“ رکھا تھا۔ اُس کے دیگر قصّوں کے مانند ایک اور حیران گھڑنت؛ ناممکن کا اسرار۔
تو میں ”بہاﺅ“ کے خالق کے سامنے تھا۔ ایک ہمہ جہت انسان کے سامنے۔ تارڑ کے سامنے۔
مستنصر حسین تارڑ کی ہر جہت انوکھی ہے، مگر میری دل چسپی کا محور ایک خاص جہت تھی؛ ناول نگاری۔ اور کئی ناولز میں سے ایک خاص ناول؛ ”بہاﺅ“۔
میں آپ کو یہ نہیں بتانا چاہتا کہ ”بہاﺅ“ ایک شاہ کار ادب پارہ ہے۔ نہیں، یہ بھی نہیں بتاﺅں گا کہ ایک ہندوستانی ادبی جریدے کے تحت ہونے والے سروے میں، جس میں اردو کے اہم ناقدین نے حصہ لیا، ”بہاﺅ“ کو اردو تاریخ کے دس بڑے ناولز میں شمار کیا گیا۔ یہ تذکرہ بھی ضروری نہیں کہ بی بی سی نے اپنے تبصرے میں ”بہاﺅ“ کو کلاسک کا درجہ دیتے ہوئے اُس کا موازنہ گیبرئیل گارسیا مارکیز کے لازوال ناول One Hundred Years of Solitude سے کیا۔
میں تو فقط یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ تحیرخیز ہے!
تارڑ صاحب سے جو گفت گو ہوئی، اُس تک رسائی سے قبل کیوں نہ ان کی زندگی پر سرسری نظر ڈال لی جائے۔ اور ایک آوارہ گرد کی زندگی پر، جس کی زیست درجنوں کتابوں میں بکھری پڑی ہے، یہاں فقط سرسری نظر ہی ڈالی جاسکتی ہے!
مستنصر حسین تارڑ یکم مارچ 1939 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد، رحمت خان تارڑ گجرات کے ایک کاشت کار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مستنصر صاحب نے اپنے والد سے گہرا اثر قبول کیا۔ بیڈن روڈ پر واقع لکشمی مینشن میں اُن کا بچپن گزرا۔ سعادت حسن منٹو پڑوس میں رہتے تھے۔ وہ مشن ہائی اسکول، رنگ محل اور مسلم ماڈل ہائی اسکول کے طالب علم رہے۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ ایف اے کے بعد برطانیہ کا رخ کیا، جہاں فلم، تھیٹر اور ادب کو نئے زاویے سے سمجھنے، پرکھنے اور برتنے کا موقع ملا۔ پانچ چھے برس وہاں گزرے۔ 1957 میں شوق آوارگی انھیں ماسکو، روس میں ہونے والے یوتھ فیسٹول لے گیا۔ اُس سفر کی روداد 1959 میں ہفت روزہ قندیل میں شایع ہوئی۔ یہ قلمی سفر کا باقاعدہ آغاز تھا۔
پاکستان لوٹنے کے بعد جب اندر کا اداکار جاگا، تو انھوں نے پی ٹی وی کا رخ کیا۔ پہلی بار بہ طور اداکار ”پرانی باتیں“ نامی ڈرامے میں نظر آئے۔ ”آدھی رات کا سورج“ بہ طور مصنف پہلا ڈراما تھا، جو 74ءمیں نشر ہوا۔ آنے والے برسوں میں مختلف حیثیتوں سے ٹی وی سے منسلک رہے۔ جہاں کئی یادگار ڈرامے لکھے، وہیں سیکڑوں بار بہ طور اداکار کیمرے کا سامنا کیا۔ پاکستان میں صبح کی نشریات کو اوج بخشنے والے میزبانوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ بچوں کے چاچا جی کے طور پر معروف ہوئے۔
1969 میں وہ یورپی ممالک کی سیاحت پر روانہ ہوئے، واپسی پر ”نکلے تری تلاش میں“ کے نام سے سفرنامہ لکھا۔ یہ 71ءمیں شایع ہوا۔ قارئین اور ناقدین دونوں ہی نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اِسے پڑھنے کے بعد محمد خالد اختر نے لکھا تھا:”اُس نے مروجہ ترکیب کے تاروپود بکھیر ڈالے ہیں!“ اِس کتاب کو ملنے والی پذیرائی کے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اگلا سفر نامہ ”اندلس میں اجنبی“ تھا، جسے پڑھ کر شفیق الرحمان نے کہا: ”تارڑ کے سفرنامے قدیم اور جدید سفرناموں کا سنگم ہیں!“
بیالیس برسوں میں تیس سفرنامے شایع ہوئے۔ بارہ صرف پاکستان کے شمالی علاقوں کے بارے میں ہیں۔ پاکستان کی بلند ترین چوٹی ”کے ٹو“ پر ان کا سفرنامہ اس قدر مقبول ہوا کہ دو ہفتے میں پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا۔ اِس علاقے سے اُن کے گہرے تعلق کی بنا پر وہاں کی ایک جھیل کو ”تارڑ جھیل“ کا نام دیا گیا۔ چند نمایاں سفرناموں کے نام یہ ہیں: خانہ بدوش، نانگا پربت، نیپال نگری، سفرشمال کے، اسنولیک، کالاش، پتلی پیکنگ کی، ماسکو کی سفید راتیں، یاک سرائے، ہیلو ہالینڈ اور الاسکا ہائی وے۔
سفرنامے کے میدان میں اپنا سکا جما کر ناول نگاری کی جانب آگئے۔ اولین ناول ”پیار کا پہلا شہر“ ہی بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ اب تک اِس کے پچاس سے زاید ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔ یوں تو ہر ناول مقبول ٹھہرا، البتہ ”راکھ“ اور ”بہاﺅ“ کا معاملہ مختلف ہے۔ خصوصاً ”بہاﺅ“ میں اُن کا فن اپنے اوج پر نظر آتا ہے، پڑھنے والوں نے خود کو حیرت کے دریا میں بہتا محسوس کیا۔ اِس ناول میں تارڑ صاحب نے تخیل کے زور پر ایک قدیم تہذیب میں نئی روح پھونک دی۔ ”بہاﺅ“ میں ایک قدیم دریا سرسوتی کے معدوم اور خشک ہوجانے کا بیان ہے، جس سے پوری تہذیب فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے۔
”راکھ“ کو 1999 میںبہترین ناول کے زمرے میں وزیر اعظم ادبی ایوارڈ کا مستحق گردانا گیا، جس کا بنیادی موضوع سقوط ڈھاکا اور بعد کے برسوں میں کراچی میں جنم لینے والے حالات ہیں۔ ”قلعہ جنگی“ نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے پس منظر میں لکھا گیا۔ اردو کے ساتھ پنجابی میں بھی ناول نگاری کا کام یاب تجربہ کیا۔ اس سفر میں افسانے بھی لکھے۔ ان کی شناخت کا ایک حوالہ کالم نگاری بھی ہے، جس میں ان کا اسلوب سب سے جداگانہ ہے۔
مطالعے کی عادت جتنی پختہ ہے، اتنی ہی پرانی۔ اردو میں قرة العین ان کی پسندیدہ لکھاری ہیں۔ اُن کا ناول ”آخری شب کے ہمسفر“ اچھا لگا۔ ٹالسٹائی اور دوستوفسکی کے مداح ہیں۔ ”برادرز کرامازوف“ کو دنیا کا سب سے بڑا ناول خیال کرتے ہیں۔ شفیق الرحمان کی کتاب ”برساتی کوے“ کو اپنے سفرنامے ”نکلے تری تلاش میں“ کی ماں قرار دیتے ہیں۔ کرنل محمد خان کی ”بجنگ آمد“ کو اردو کا بہترین نثری سرمایہ سمجھتے ہیں۔ غیرملکی ادیبوں میں رسول حمزہ توف کی ”میرا داغستان“ اور آندرے ژید کی خودنوشت اچھی لگیں۔ کافکا اور سارتر بھی پسند ہیں۔ ترک ادیب، یاشر کمال اور اورحان پامک کے مداح ہیں۔ مارکیز اور ہوسے سارا ماگو کو بھی ڈوب کر پڑھا۔ ممتاز ادیب، محمد سلیم الرحمان کی تنقیدی بصیرت کے قائل ہیں۔ اپنی تخلیقات کے تعلق سے ان سے مشورہ ضرور کرتے ہیں۔ نوبیل انعام یافتگان کی تخلیقات پر بھی گہری نظر ہے۔ ان کی کتب خصوصی توجہ سے پڑھتے ہیں، اور بہ قول ان کے، جو پسند آتا ہے، اس سے اثر بھی لیتے ہیں۔
تارڑ صاحب کی زندگی کے اِس مختصر جائزے کے بعد سوال و جواب کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں، جو فکشن کی دنیا تو نہیں ہے، مگر اُس سے کم پُرتجسس بھی نہیں۔
اقبال: ”پوسٹ ماسٹر“، جس کا علم اور فیصلہ حتمی ہے، آپ کے ناول ”ڈاکیا اور جولاہا“ پر چھایا نظر آتا ہے۔ بہ طور تخلیق کار آپ خود کو پوسٹ ماسٹر یا خدا کے سامنے کتنا بااختیار اور بے اختیار محسوس کرتے ہیں؟ تقدیر کے کس حد تک قائل ہیں؟
تارڑ: خدا کے معاملے کو رہنے دیتے ہیں۔ آپ اِسے Fate کہہ لیں۔ Fate سے مراد تقدیر نہیں۔ تقدیر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ لکھی جاچکی ہے۔ اِسے یوں سمجھتے ہیں کہ ملالہ تین لڑکیاں ہیں۔ ایک ملالہ حملے میں بچ جاتی ہے، اور ہیروئن بن جاتی ہے۔ باقی دو بھی اذیت سے گزری ہوں گی، مگر پہلی لڑکی کے حصے میں شہرت آئی۔ یہ Fate ہے۔ امریکی رائٹر Richard Bach کا ایک ناول تھا، Jonathan Livingston Seagull۔ جسے شروع میں رد کر دیا گیا۔ کئی برس یونہی پڑا رہا۔ اتفافیہ طور پر کسی نقاد کے ہاتھ لگ گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ یہ تو بڑا ناول ہے۔ اُس نے ٹائم میگزین میں اس پر تبصرہ لکھ دیا۔ اور یوں راتوں رات وہ بیسٹ سیلر بن گیا، منصف لکھ پتی ہوگیا۔ یہ Fate ہے، کیوں کہ اس میں مصنف کی صلاحیت کا عمل دخل نہیں۔ ٹیلنٹ تو اس میں تھا، مگر اورروں میں بھی ایسا ٹیلنٹ موجود تھا۔ اِسی طرح میں کہتا ہوں؛ مجھ میں جو ٹیلنٹ ہے، وہ اور رائٹرز میں بھی ہے، لیکن میری کتابیں لوگوں کو پسند آتی ہیں۔ اِس نقطہ ¿ نگاہ سے میں دنیا کا خوش بخت ترین آدمی ہوں۔ مثلاً میں نے ایک فضول سا پروگرام ”شادی آن لائن“ شروع کیا۔ خیال تھا کہ وہ جلد بند ہوجائے گا، وہ سات سال چلتا رہا۔ مارننگ ٹرانسمیشن کا معاہدہ چھے ماہ کے لیے تھا، وہ آٹھ سال چلا۔ بلاشبہہ، ان پروگرامز کی مقبولیت میں میری محنت بھی ہے۔ میں اپنے پروفیشن کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہوں، مگر آپ Fate کے عمل دخل کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔
اقبال: آپ کی پہلی کتاب ”نکلے تیری تلاش میں“ اردو ڈیپارٹمنٹ، ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہوئی۔ کیا یہ بھی Fate تھا؟
تارڑ: ہاں! وہ اِس لیے نصاب میں شامل ہوئی کہ ایک روز پروفیسر Galina Deshenko لائبریری گئیں، اور اُنھیں وہ کتاب مل گئی۔ وہ اُس سے متاثر ہوئیں۔ اب وہاں کسی اور کی کتاب ہوتی، تو وہ سامنے آجاتا۔ تو یہاں Fate اپنا اثر دکھاتا ہے۔
اقبال: توجہ آپ کے ناولز کی جانب مبذول کرتے ہیں۔ ”بہاﺅ“ میں آپ کا قلم ایک نئی دنیا تخلیق کرتا ہے۔ اِس ناول کی تکمیل میں بارہ برس صَرف ہوئے۔ کیا وہ برس تخلیقی مسرت سے بھرپور رہے، یا وہ کرب ناک تجربہ تھا؟
تارڑ: گذشتہ دنوں میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ اُس میں ایک سطر تھی کہ History is written by the invisible ink.، یعنی اُسے آپ کوئی بھی پہناوا پہنا سکتے ہیں۔ اُسی طرح شاعری آنسوﺅں سے لکھی جاتی ہے، اور فکشن خون سے۔ تو فکشن کا یہ معاملہ ہے۔ یہی معاملہ ”بہاﺅ“ کا تھا۔ اب ”بہاﺅ“ میں نے تین بار Rewrite کیا۔ باقی جتنی بھی تحریریں ہیں، چاہے وہ سفرنامے ہوں یا ناول، انھیں دو بار لکھتا ہوں۔ یعنی میں نے اُس پر محنت کی۔ کچھ عرصے پہلے کوئی وفا اور بے وفائی کی بات کر رہا تھا۔ تو میں نے کہا؛ سب سے زیادہ وفا مجھ سے میری رائٹنگ ٹیبل اور قلم نے کی۔ اُنھوں نے کبھی مجھ سے بے وفائی نہیں کی۔ اور میں نے بھی نہیں کی۔ ہر شام سات بجے میں لکھنے کی میز کے سامنے بیٹھ جاتا ہوں، اور رات گیارہ بجے تک بیٹھا رہتا ہوں۔
اقبال: ”بہاﺅ“ لکھتے ہوئے بیٹھک اتنی طویل کیوں ہوگئی؟ بارہ برس معنی رکھتے ہیں۔
تارڑ: اُسے لکھنے میں وقت نہیں لگا۔ اصل وقت تحقیق میں لگا۔ زبان کا کیا رنگ ڈھنگ ہونا چاہیے؟ یہ اہم سوال تھا۔ جب میں نے اُسے لکھنا شروع کیا، تو پچاس ساٹھ صفحات لکھ کر اُسے پڑھا۔ اندازہ ہوا کہ جو زبان میں نے لکھی ہے، وہ آج کی زبان ہے۔ مثلاً لڑکا لڑکی سے کہتا ہے: ”مجھے تم سے محبت ہے!“ اب پانچ ہزار سال پہلے تو یہ بات اِس طرح نہیں کہی جاتی ہوگی۔ منشی پریم چند کے زمانے میں بھی محبت کا اظہار اِس طرح نہیں کیا جاتا تھا۔ اِس کے بجائے کہا جاتا تھا: ”تم نے مجھے موہ لیا ہے۔“ اگر ساٹھ ستر سال میں Expression اتنا تبدیل ہوگیا، تو پانچ ہزار سال پہلے کا Expression کیا ہوگا۔ پھر چند ماہر لسانیات، مثلاً علی عباس جلال پوری اور فرید کوٹی سے مشورے کیے کہ اُس زمانے میں کون کون سی زبانیں تھیں۔ اتفاق سے اُن ہی دنوں مجھے The ancient Tamil poetry کے موضوع پر برکلے یونیورسٹی کا ایک تھیسس ملا۔ یہ بڑا دل چسپ امر ہے کہ تامل اور براہوی، دو زبانیں ایسی ہیں، جنھوں نے دراوڑی زبان سے سب سے زیادہ الفاظ لیے۔ میں نے سوچا کہ قدیم تامل شاعری کا Expression ضرور اُس زمانے میں رائج دراوڑی بولی کے قریب تر ہوگا۔ تو اس تھیسس کا پورا مطالعہ کیا۔ ردھم اور اس زمانے کے استعاروں کو سمجھا۔ ”بہاﺅ“ میں آپ کو کوئی جدید استعارہ نہیں ملے گا۔ جب کردار کی چال کا تذکرہ آتا ہے، تو یہ کہا جاتا ہے؛ اُس کی چال اتنی خوب صورت تھی کہ شہد کی مکھیاں اُس کے پیچھے پیچھے چلی جاتیں۔ یا پھر؛ اس کے Hip (سرین) کوبرا کے پھن کی طرح تھے، جن میں زہر بھرا تھا، جن سے وہ مجھے ڈس سکتی تھی۔ یعنی میں نے قدیم تامل شاعری پڑھی، اور اس میں اختراع کی۔ اگر مجھے پیٹرن مل جائے، تو میں اختراع کر لیتا ہوں۔ میرا جو آخری ناول ہے ”اے غزال شب“، اس میں مرکزی کردار ”گیتا“ سے کرشن کے مکالمے بولتا ہے۔ میں نے چار پانچ فقرے وہاں سے لیے، باقی خود لکھے۔ مگر پڑھنے والے کو لگتا یہی ہے کہ کرشن بول رہا ہے۔ مثلاً اِس کا ایک فقرہ ہے: ”اے ارجن، اس دنیا میں رہو، لیکن اس سے آلودہ نہ ہو، جیسے ایک مرغابی پانی میں رہتی ہے، مگر اس کے پر گیلے نہیں ہوتے۔“ اِسی طرح میرا ایک سفرنامہ ہے، ”الاسکا ہائی وے!“ اُس میں ایک منظر تھا، جو میں نہیں بیان کر سکا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اُسے کس طرح لکھوں۔ پھر خیال آیا، قدیم عربی شاعری میں قصیدے لکھے جاتے تھے۔ میں نے دو تین قصیدے پڑھے۔ اور اُن کے پیٹرن پر وہ منظر لکھا۔ یعنی پڑھنے اور سیکھنے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے، اور یہ آپ سے وقت کا تقاضا کرتا ہے۔
اقبال: فکشن میں مشاہدے اور تجربے کو گوندھا جاتا ہے، مگر ”بہاﺅ“ میں نہ تو مشاہدہ میسر تھا، نہ ہی تجربہ۔ فقط تخیل تھا۔ خالص تخیل کی بنیاد پر لکھنا مشکل ہے، یا نسبتاً سہل کہ اِس ضمن میںاعتراضات کا امکان مٹ جاتا ہے؟
تارڑ: جہاں تک ”بہاﺅ“ کا تعلق ہے، اُسے ادب کے قارئین کے علاوہ سنجیدہ مورخین اور ماہرین نے بھی پڑھا۔ کچھ نے چند غلطیوں کی بھی نشان دہی کی۔ مثلاً کسی نے کہا؛ آپ نے فلاں جگہ لکھا، جو کی کاشت ہورہی تھی مگر اُس زمانے کا موسم جو کی کاشت کے لیے مناسب نہیں تھا۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ لکھتے ہوئے حقائق ساتھ لے کر چلوں۔ میں نے تحقیق کی۔ ملتان کے ایک صاحب تھے، ابن حنیف۔ اُنھوں نے میرا بہت ساتھ دیا۔ میں اُنھیں لکھ بھیجتا، وہ اُسے دیکھ لیا کرتے۔ میں نے ویدوں کو بھی پڑھا۔ دیکھا کہ اُن میں اِن علاقوں کو کیا کہا گیا ہے۔ میں نے پڑھا کہ اُس زمانے میں لوگ فقط تین رنگوں کو پہچانتے تھے۔ تو میں نے شعوری پر ناول میں کہیں تین سے زیادہ رنگوں کا تذکرہ نہیں کیا، اگر میں کر جاتا، تو شاید کسی کو اندازہ نہیں ہوتا۔ اِس طرح میں اپنی تسلی کے لیے تحقیق کرتا ہوں۔ اور تخیل کو حقائق کے قریب تر لانے کی کوشش کرتا ہوں۔
اقبال: ”بہاﺅ“ کی تکمیل کے بعد، اُس کے اثر سے نکلنا کتنا دشوار ثابت ہوا؟ کیا اب بھی من کے بَن میں مور بولتا ہے؟
تارڑ: ہوتا یہ ہے کہ لکھتے ہوئے میں اُسی دنیا میں چلا جاتا ہوں، کیوں کہ بنیادی طور پر میں آوارہ گرد ہوں۔ تو وہ کیفیت خود پر طاری کر لیتا ہوں۔ چند لوگوں نے کہا؛ پاروشنی کے ہاں بچہ ہونے کے منظر کو میں نے بہت گرفت کے ساتھ لکھا ہے۔ سبب یہ ہے کہ میں محسوس کرتا ہوں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میرے اندر 30 فی صد عورت ہے۔ اور ہر تخلیق کار، چاہے وہ رائٹر ہو، موسیقار ہو، یا رقاص، اس میں عورت ضرور ہوتی ہے۔ اُس کے بغیر وہ مکمل ادب تخلیق نہیں کرسکتا۔ اگر میں مکمل طور پر مرد ہوں، تو ناول میں عورت کے کردار سے انصاف نہیں کر سکوں گا۔ عبداﷲ حسین نے بھی کہا کہ پاروشنی اردو ادب کا مضبوط ترین Female کردار ہے۔ اسی طرح پاسکل ہے۔ یعنی میرے نسوانی کردار زیادہ مقبول ہوئے۔ اگر میں اُنھیں محسوس نہیں کرتا، تو وہ کبھی بڑے کردار نہیں بن پاتے۔
اقبال: بلاشبہہ، پاروشنی اردو فکشن کا مضبوط ترین نسوانی کردار ہے۔ یہ خالصتاً تخیل کی پیداوار ہے، یا سیاحت کے دوران اُس پری وش سے سامنے ہوا؟
تارڑ: دراصل پاروشنی ایک ایسی لڑکی تھی، جو بہت خوب صورت تھی۔ میرے اور اُس کے درمیان ایک رشتہ تھا۔ Understanding کا رشتہ، یا اور محبت کا رشتہ کہہ لیں۔ پاروشنی اسی کا سراپا ہے۔ چال ڈھال، جسمانی خطوط میں نے وہاں سے لیے، مگر میں اسے پانچ ہزار سال پیچھے لے گیا۔
اقبال: ”بہاﺅ“ کی بُنت کا آغاز کیسے ہوا؟
تارڑ: دراصل مجھے رات میں اٹھ کر پانی پینے کی عادت ہے۔ میں سائیڈ ٹیبل پر پانی سے بھرا گلاس رکھ لیتا ہوں۔ اور میں شیشے کا گلاس نہیں رکھتا۔ مجھے پکے گلاس میں پانی پینے کی عادت ہے۔ تو وہ بہت گرم رات تھی۔ جب نیم غنودگی میں اٹھ کر میں نے پانی پیا، تو احساس ہوا کہ گلاس میں، میرے اندازے کے مطابق، جہاں تک پانی ہونا چاہیے، وہ اُس سے تھوڑا کم ہے۔ بیرونی حصے میں پانی کی ٹھنڈ یا نمی وہاں محسوس نہیں ہوئی، جہاں پہلے ہوا کرتی تھی۔ وہ پہلا موقع تھا، جب ”بہاﺅ“ کا ابتدائی خیال کہ پانی خشک ہورہا ہے، میرے ذہن میں آیا۔ پھر میں نے ایک آرکیالوجسٹ، رفیق مغل کی تحریر پڑھی، جو چولستان کے بارے میں تھی۔ اس میں ایک لائن تھی، جو مجھے اب تک یاد ہے: ”اساطیری دریا سرسوتی ان دنوں چولستان میں بہا کرتا تھا۔ پھر کسی نامعلوم سبب وہ خشک ہوگیا!“ یہ سطر میرے ذہن میں بیٹھ گئی۔ میں چولستان گیا۔ وہاں مجھے وہ ٹھیکریاں سی ملیں، جنھیں میں نے بعد میں ناول میں استعمال کیا۔ پھر مزید تحقیق کی، ناول کی شکل سامنے آئی۔ تو جیسا میں نے کہا، میں اپنے کام پر بہت محنت کرتا ہوں۔ شاید اسی وجہ سے ”بہاﺅ“ کو پسند کیا گیا، اور اس نے اپنی جگہ بنا لی۔
اقبال: ناول نگار، سفرنامہ نویس، اداکار، کالم نویس، ڈراما نویس؛ خود کو کس طرح شناخت کروانا پسند کرتے ہیں؟
تارڑ: نہیں، میں خود کو کسی طرح شناخت کروانا پسند نہیں کرتا، ماسوائے اِس کے کہ میں ایک آوارہ گرد ہوں، جو کہیں ٹک کرنہیں بیٹھ سکتا۔ کبھی وہ افسانے کی گلی میں چلا جاتا ہے، کبھی ناول تو کبھی سفرنامے کی جانب نکل جاتا ہے، کیوں کہ وہ Brand بننا پسند نہیں کرتا۔ یہی میرا معاملہ ہے۔ اگر آپ بڑے تخلیق کاروں کی زندگی کا جائزہ لیں، تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اُنھوں نے سب کچھ کیا۔ مثلاً منٹو صرف افسانے نہیں لکھتا تھا۔ اس نے اداکاری بھی کی، ڈرامے بھی لکھے۔ بیدی اور کرشن چندر کو دیکھ لیں۔ تو میں Oneness کا قائل نہیں۔ شناخت کرنے والے کرتے کیا ہیں کہ اچھا تو آپ سفرنامہ نویس ہیں، ٹھیک ہے۔ آپ پر ٹھپا لگا کر، Brand بنا کر دراز میں بند کر دیا۔ اِس سے انھیں تسکین ملتی ہے۔ اب میں دراز میں بند نہیں ہوتا۔ اور وہ کر بھی نہیں سکتے۔
اقبال:دراز میں بند نہ ہونے کا فیصلہ شعوری تھا، یا لاشعوری؟
تارڑ: نہیں، قطعی شعوری نہیں تھا۔ میں نے کبھی منصوبہ بندی کرکے ادب نہیں لکھا کہ یہاں سے شروع کرنا ہے، یہاں پہنچنا ہے۔ یہ امیج بنانا ہے۔ میرا یہ معاملہ نہیں۔
اقبال: بلاشبہہ، آپ Brand بننا پسند نہیں کرتے، مگر آپ کے فن کی کئی جہتیں ہیں، کیا سوچتے ہیں، کون سی جہت آپ کو زندہ رکھے گی؟
تارڑ: سچ کہوں تو اِس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرے مرنے کے بعد اگر ملک کے ہر چوک پر میرے مجسمے لگا دیے جائیں، تو اِس سے مجھے کیا حاصل ہو گا۔ مجھے دائمی شہرت کی خواہش نہیں۔ اور مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اگر دنیا مرنے کے بعد مجھے یک سر بھول جائے۔
اقبال: آپ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مستقبل میں آپ کو آپ کے ناولز زندہ رکھیں گے؟
تارڑ: دراصل یہ سوال Comparasion میں پوچھا گیا تھا۔ اور میرا جواب “If” میں تھا۔ اور یہ ایک بڑا “If” تھا۔ تو میں نے کہا تھا کہ اگر میں باقی رہتا ہوں، تو ممکنہ طور پر اِس کا سبب میرے ناول ہی ہوں گے۔ سفرنامہ Reference تو ہوسکتے ہے، مگر معلومات کی حد تک۔ اس بات پر پوری دنیا متفق ہے کہ ناول ہی ادب کا مرکزی حوالہ ہے۔
اقبال: اِسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ صدی، ناول کی صدی ہے؟
تارڑ: ناول کی صدی ایک طویل عرصے سے چلی آرہی ہے۔ روسیوں نے، فرانسیسیوں نے، امریکیوں نے سب ہی نے ماسٹر پیس تخلیق کیے۔ تو ناول ایک طویل عرصے سے ادبی دنیا پر غالب ہے۔
اقبال: ”پیار کا پہلا شہر“ کا شمار بیسٹ سیلرز میں ہوتا ہے۔ اب تک اس کے کتنے ایڈیشن آچکے ہیں؟
تارڑ:جو آخری ایڈیشن آیا ہے ویسے میری کتابوں پر ایڈیشن نہیں لکھا ہوتا۔ یہ میری بیوی کا مشورہ تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سے نظر لگ جاتی ہے۔ (قہقہہ) خیر، ابھی 56 واں ایڈیشن آیا تھا۔ اور یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں۔ ورنہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔
اقبال: کیا پہلے ناول کی اتنی پذیرائی متوقع تھی؟
تارڑ: قطعی نہیں۔ میں اُسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ سفری ناول کہتا ہوں۔ البتہ اس میں کوئی ایسا جادو ضرور ہے، جس سے میں لاعلم ہوں، مگر جس نے پڑھنے والوں کو گرویدہ بنا لیا۔ اِس پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے کہ ”پیار کا پہلا شہر“ کس طرح لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہوا، کیوں بیسٹ سیلر بنا۔ مجھے یاد ہے، پنجاب یونیورسٹی کی ایک لڑکی تھی، جو لنگڑاتی تھی۔ سب اسے پاسکل کہا کرتے تھے۔ اُس وقت اس نے میرا ناول نہیں پڑھا تھا۔ ناول پڑھنے کے بعد اس نے رابطہ کیا، اور کہا؛ میری زندگی بہت ہی اذیت ناک تھی، مگر یہ ناول پڑھ کر مجھے بہت اعتماد ملا۔ اب یہ نقص میری پہچان بن گیا ہے۔ اسی طرح ”شادی آن لائن“ میں ایک دفعہ تین انتہائی پڑھی لکھی، مگر اپاہج لڑکیاں آئیں۔ تینوں نے اپنا نام پاسکل بتایا۔ اور یہی کہا کہ اِس ناول سے انھیں بہت اعتماد ملا۔ تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر اِس ناول نے لوگوں کو خوشی دی ہے، اِس سے قطع نظر کہ وہ بڑا ناول ہے یا نہیں، اُسے یاد رکھا جائے گا۔
اقبال: آج قارئین آپ کو ”پیار کا پہلا شہر“ کے مصنف کے طور پر یاد رکھتے ہیں، یا ”بہاﺅ“ کے مصنف کے طور پر؟
تارڑ: رائے بدلتی رہتی ہے۔ ابتدا میں تو ”پیار کا پہلا شہر“ ہی پہچان کا حوالہ تھا، مگر دھیرے دھیرے ”بہاﺅ“ کا اثر غالب آنے لگا۔ دراصل کسی ناول کے بارے میں حتمی رائے تیس سال بعد ہی دی جاسکتی ہیں۔ میرے آخری ناول ”اے غزال شب“ کی بہت پذیرائی ہوئی۔ گذشتہ دنوں ڈاکٹر لڈمیلا روس سے آئی ہوئی تھیں، اُنھوں نے اِس کا ذکر کیا، مگر اِس کا قطعی مطلب نہیں کہ یہ بڑا ناول ہے۔ اِس کا اندازہ ہمیں بیس پچیس سال بعد ہی ہوگا۔
اقبال: ”ڈاکیا اور جولاہا“ ایک ”ناممکن“ کو ”ممکن“ کرنے کی کوشش ہے۔ کچھ یہی معاملہ ”بہاﺅ“ کا بھی ہے۔ ناممکن میں ایسا کیا اسرار ہے کہ تخلیق کار اس کا تعاقب کرتا ہے؟
تارڑ: جو نامعلوم ہے، وہ متوجہ کرتا ہے۔ نامعلوم کے ساتھ میرے ناولوں میں موت بھی ایک اہم عنصر ہے۔ میرے نزدیک موت انسان کے لیے قدرت کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔ موت نہیں ہوتی، تو زندگی بے معنی ہو جائے۔ یہ فنا کا خوف ہی ہے، جو انسان کو موجودات کے حسن سے آگاہ کرتا ہے۔ جہاں تک ناممکن کا تعلق ہے ممکن تو انسان کے بس میں ہے۔ تخلیق کار ممکن سے پار جانے کی کوشش کرتا ہے، یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ جسے ناممکن کہا جاتا ہے، وہ کس حد تک ناممکن ہے۔
اقبال : کیا یہی اسرار آپ کے ناولز کی مقبولیت کا بنیادی سبب ہے؟
تارڑ: کوئی نہ کوئی بھید ہوتا ہے، کوئی چیز ہوتی ہے، جو قاری کو گرفت میں لیتی ہے۔ گذشتہ پندرہ بیس سال سے میں بیسٹ سیلر ہوں۔ پہلے جب ہمارے وہ ساتھی، جو خود کو سنجیدہ رائٹر کہتے ہیں، مجھے بیسٹ سیلر کہہ کر مخاطب کرتے، تو مجھے بڑی شرمندگی ہوتی تھی۔ پھر مجھ میں تھوڑا اعتماد آیا۔ میں نے سوال اٹھایا کہ وہ کتاب، جس کے سرورق پر گرد جم جائے، جسے کوئی نہ پڑھے، اُس کا کیا حاصل۔ اگر کسی رائٹر کو لوگ پڑھتے ہیں، تو آپ اِس پر پھبتیاں کسنے لگتے ہیں۔ میں چار پانچ نام لیتا ہوں،جو بیسٹ سیلر ہیں؛ کرشن چندر، منٹو، بیدی، قرة العین حیدر، آج کے دور میں انتظار حسین، اشفاق احمد۔ یہ تمام بیسٹ سیلر ہیں۔ بلاشبہہ، بیسٹ سیلر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بڑے ادیب ہیں، مگر یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ بڑے ادیب نہیں ہیں۔
اقبال: ناولز کی فروخت کے معاملے نے اردوفکشن میں ایک تقسیم پیدا کی، جسے سنجیدہ ناول اور کمرشل ناول کہہ کر شناخت کیا گیا۔ گذشتہ دس برس سے ڈائجسٹ کی طرز پر، الوہیت کو موضوع بنا کر لکھے جانے والے ناول خوب بک رہے ہیں۔ اُن سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
تارڑ: یہ جو پاپولر رائٹر ہیں، یعنی ڈائجسٹ والے اُن کے اندر بھی کوئی خاص بات ہے۔ وہ بے سبب پاپولر نہیں۔ ہم ان کا ٹھٹھا نہیں اڑا سکتے۔ ایک بار رضیہ بٹ میرے ہاں آئیں۔ اُنھوں نے شکایت کی کہ میری بیٹیاں میرے ناول نہیں پڑھتیں، آپ کے ناول پڑھتی ہیں۔ خیر، تو وہ مجھے پلندہ دی گئیں اپنے ناولوں کا۔ چند ناول پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کہانی کی بُنت جانتی ہیں۔ اُن کی کتابیں یونہی فروخت نہیں ہوتیں۔ تو یہ جو پاپولر رائٹر ہوتے ہیں، ان میں کوئی نہ کوئی جوہر ہوتا ہے۔ بس ایک فرق ہے، وہ تخصیص نہیں کرسکتے کہ کتنا کہنا ہے، اور کہاں رکنا ہے۔
اقبال: لیکن یہ اندیشہ بھی تو ہے کہ شاید بیس برس بعد فقط کمرشل ادب باقی رہے۔ شاید لوگ قرة العین حیدر اور ”آگ کا دریا“ کو بھول جائیں، ”پیرکامل“ ہی سب سے بڑا ناول ہو؟
تارڑ :میں عرض کروں، یہ ہوگا نہیں۔ اِس کی چند وجوہات ہیں۔ اب میں جانتا ہوں کہ ”پیار کا پہلا شہر“ پچاس سال بعد بڑا ناول نہیں ہوگا۔ زندہ رہنے والے ادب کے Parameters اور ہیں۔ امریکا میں جو بیسٹ سیلر ہیں، وہ بڑے ادیب نہیں۔ مثلاً سڈنی شیلڈن نے بہت اچھا لکھا، مگر وہ بڑا ادیب نہیں ہے۔ Walt Whitman کی ایک کتاب ہے، Leaves of Grass۔ وہ Surviveکر گئی۔ لوگوں کی درجنوں کتابیں Survive نہیں کرسکیں۔ تو میرے نزدیک یہ ممکن نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے، جب ”راکھ“ شایع ہوا، تو کراچی میں ایک صاحب ریاض صدیقی ہوا کرتے تھے۔ میں اُن سے کبھی نہیں ملا۔ تو انھوں نے اِسے بہت پسند کیا۔ اِس پر مضامین لکھے۔ اُنھوں نے کسی محفل میں کہہ دیا کہ یہ ”آگ کا دریا“ سے بڑا ناول ہے۔ مجھے اس معاملے کا تب پتا چلا، جب کراچی سے کچھ دوستوں نے مختلف افراد کے مضامین کے تراشے بھجوائے، جن میں اِس بات پر شدید اعتراض کرتے ہوئے ”راکھ“ پر کڑی تنقید کی تھی۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے، کوئی مسئلہ نہیں۔ بس شکایت یہ تھی کہ ”آگ کا دریا“ سے موازنے والی بات میں نے تو نہیں کہی۔ بعد میں مَیں نے اِسی پر React کرتے ہوئے ایک کانفرنس میں سوال اٹھایا کہ کیا ”آگ کا دریا“، ”اداس نسلیں“ بائبل ہیں؟ کیا ان سے بہتر نہیں لکھا جاسکتا؟ نہیں یہ بائبل نہیں ہیں۔ یہ آپ کی کم علمی ہے۔ آپ نے فقط دو ناول پڑھے ہیں، اُن ہی کا حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ اس بات پر شمیم حنفی نے احتجاج بھی کیا۔ میرے نزدیک ناولوں کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ قرة العین کا ناول ہے، یہ عبداﷲ حسین کا ناول ہے، اور یہ تارڑ کا۔ مجھے یاد آیا، گوپی چند نارنگ نے ایک بار کہا تھا؛ ہم پاکستان میں فکشن کے حوالے سے تین حُسین کے قائل ہیں۔ انتظارحسین، عبداﷲ حسین اور میں۔ موازنے کی ضمن میں آپ کو مثال دوں۔ ترکی کا بڑا مشہور ناول نگار ہے، یاشر کمال۔ مجھے وہ بہت پسند ہے۔ میں نے اپنے پوتے کا نام بھی اُسی کے نام پر رکھا۔ پھر اورحان پامک کا ناول My Name Is Red پڑھا، جس نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔ اب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یاشر کے ناول My Name Is Red سے بڑے ہیں، یا یہ ناول یاشر کی تخلیقات سے بڑا ہے۔ تو میری یہی درخواست ہے کہ میرے ناولوں کا دوسروں کے ناولوں سے موازنہ نہ کریں۔ اور یہی معاملہ دیگر کے ناولز کا ہے۔
اقبال: ”راکھ“ میں آپ نے ”سقوط ڈھاکا“ کو موضوع بنایا۔ اس ناول کی اشاعت سانحے کے کئی برس بعد ہوئی۔ دوسری جانب ”قلعہ جنگی“ افغانستان پر امریکی حملے کے پس منظر میں لکھا گیا۔ یہ ایک تازہ واقعہ تھا، مگرردعمل فوری آیا، اِس کا کوئی خاص سبب؟
تارڑ: سبب یہ تھا کہ ”قلعہ جنگی‘ ایک مخصوص مقام پر جنم لینے والے سانحے سے متعلق تھا۔ جب کہ ”راکھ“ ایک ایسے المیے کے بارے میں تھا، جس نے پورے ملک کو متاثر کیا۔ جس نے مسلمانوں کی، پاکستانیوں کی تاریخ بدل ڈالی۔ ایسے بڑے سانحے پر ایک دم نہیں لکھا جاسکتا۔ مسعود مفتی ڈھاکا کے ڈی سی رہے۔ سقوط کے بعد دو برس وہاں قید کاٹی۔ وہاں کے متعلق لکھا بھی۔ اُنھوں نے ”راکھ“ پڑھا، تو بہت تعریف کی۔ مجھ سے سوال کیا کہ آپ کبھی وہاں گئے ہیں؟ میں نے کہا؛ نہیں، میں کبھی مشرقی پاکستان نہیں گیا، مگر اس خطے سے میری روحانی وابستگی ہے۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ میرے اندر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا گھاﺅ ہے۔
اقبال: آپ ایک ایسے عہد میں لکھ رہے ہیں، جہاں بات ”آگ کا دریا“ اور ”اداس نسلیں“ سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ ایسے میں تجربات کے لیے، کچھ نیا لکھنے کے لیے ایک خاص نوع کے اعتماد کی بھی تو ضرورت ہوتی ہوگی۔
تارڑ: دیکھیں، جب ”بہاﺅ“ چھپا، تو اس سے متعلق میری اپنی دو آرا تھیں۔ ایک تو یہ کہ اِسے رد کر دیا جائے گا۔ اور دوسری یہ کہ ”بہاﺅ“ مجھے وہاں لے جائے گا، جہاں بہت کم لوگ پہنچے ہیں۔ جیسے چینی ادیب مُو یان سے پوچھا گیا کہ ادبی دنیا میں آپ خود کو کہاں دیکھتے ہیں؟ اس نے کہا؛ میں خود تو اپنے مقام کا تعین نہیں کرسکتا، لیکن ایک چیز کا دعویٰ کرسکتا ہوں، اور کوئی اسے رد نہیں کرسکتا کہ Red Sorghum جیسا ناول اور کوئی چینی نہیں لکھ سکتا۔ میں بھی اسی تناظر میں یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ ”بہاﺅ“ جیسا ناول، جیسا بھی وہ ہے، کوئی اور اردو ادیب نہیں لکھ سکتا۔ مجھے یاد ہے، میں سارک کانفرنس میں شریک تھا۔ منتظمین نے عین وقت پر بتایا کہ آپ کو اپنی کوئی تحریر انگریزی میں پڑھنی ہوگی۔ میرے پاس انگریزی میں کچھ تھا نہیں، البتہ ”بہاﺅ“ کی کاپی میرے پاس تھی۔ میں نے اس کا پہلا باب پڑھ دیا۔ چار پانچ برس بعد ایک خاتون مجھے ڈھونڈتی ہوئی آئیں۔ وہ میرا نام نہیں جانتی تھیں، بس لوگوں کو یہی حوالہ دیتی تھیں کہ سارک کانفرنس میں اُنھوں نے ایک اردو رائٹر کو سُنا تھا، اور یہ تجربہ اُن کے لیے سحر انگیز رہا۔ اس طرح انھوں نے مجھے تلاش کیا۔ تو یہ ”بہاﺅ“ کا اثر ہے۔ تو اس طرح کے ردعمل سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔
اقبال: نوبیل انعام یافتگان پر آپ کی گہری نظر ہے، ان کی تخلیقات بھی مطالعے میں رہتی ہیں۔ یہ فرمائیں، اردو کے ادیبوں کو اِس انعام کے حق دار ٹھہرائے جانے والے ادیبوں کے مقابلے میں آپ کہاں دیکھتے ہیں؟
تارڑ: میں نوبیل انعام یافتہ فکشن نگاروں کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اور جو اچھا لگتا ہے، اُسے پورا پڑھتا ہوں۔ میرا بیٹا باہر ہے، وہ کتابیں بھیج دیتا ہے۔ اگر ہم اپنے ادیبوں سے موازنہ کریں، تو میں کہوں گا کہ اگر دس نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کو سامنے رکھا جائے، اُن میں سے سات تو ایسے ہیں، جن کی ہم گرد بھی نہیں پا سکتے۔ مثلاً اورحان پامک کے My Name Is Red جیسا ناول یا ہوسے ساراماگو کے Blindness جیسا ناول آپ نہیں لکھ سکتے۔ اور اس کا سبب ہمارے محدودات ہیں۔ ہم میں قبولیت نہیں ہے۔ سمجھتے ہیں، ہمارے اندر کا سچ ہی آخری سچ ہے۔ یہ تو سات کا معاملہ ہوگیا۔ باقی جو دو ہیں، وہ بھی اچھے ہیں، مگر وہ اس معیار کے نہیں، جیسے پہلے سات ہیں۔ اب دس میں سے ایک ایسا ضرور ہوگیا، جس کے متعلق مجھے لگتا ہے کہ اُس سے اچھا ہم لکھ سکتے ہیں۔ اور لکھ رہے ہیں۔ دراصل اردو ادب کا ترجمہ نہیں ہوسکا، اِس لیے اِس زبان کے رائٹرز دنیا کے سامنے نہیں آسکے۔
اقبال: کیا یہ دُرست نہیں کہ ہم نے ترجمے کے معاملے میں غفلت برتی؟
تارڑ: بالکل۔ ہم نے اِس کام کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ دنیا کی مختلف زبانوں کے ادب کا انگریزی میں ترجمہ ہوا، مگر ہم اردو ادب کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے۔ ہم کہتے ہیں، سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے، یہ بات بالکل غلط ہے۔ آخر دنیا کے کتنے ممالک کی یونیورسٹیوں میں اردو چیئر ہے، اور دیگر زبانیں کہاں کہاں پڑھائی جارہی ہیں۔ گذشتہ برس کراچی فیسٹول میں مَیں نے کہا تھا؛ ہمارے ابتدائی زمانے کے جو ناول تھے، امراﺅ جان ادا اور توبة النصوح وغیرہ، معاف کیے جائیے گا، وہ بڑے ناول نہیں تھے، بلکہ انتہائی معمولی ناول تھے۔ اُسی زمانے میں ”وار اینڈ پیس“، ”برادرز کرامازوف“، ”مادام بواری“ اور نہ جانے کیا کیا لکھا جارہا تھا۔ تو میں کہتا ہوں کہ اردو کے ناول نگار نے بڑا سفر طے کیا ہے۔ وہ بہت آگے گیا ہے۔ اُس کا آغاز تو انتہائی معمولی تھا۔ اب اگر اردو ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ ہو، تو چاہے ان کا شمار بین الاقوامی ادب میں نہ کیا جائے، مگر اُن کا نوٹس ضرور لیا جائے گا۔
اقبال: مستقبل میں اردو قارئین کو، بہ ذریعہ ترجمہ بیرونی ادیبوں سے، اپنے پسندیدہ تخلیق کاروں سے متعارف کروانے کا ارادہ ہے؟
تارڑ: نہیں، میرے پاس اتنا وقت نہیں۔ مجھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ اپنے کسی ناول کا انگریزی میں ترجمہ کریں۔ میں یہی کہتا ہوں کہ اپنے ناولوں کے ترجمے کے لیے جو ادبی زبان اور وقت درکار ہے، وہ میرے پاس نہیں۔ ”بہاﺅ“ یا ”راکھ“ کا فقط ترجمہ نہیں کرنا، بلکہ ادبی ترجمہ کرنا ہے۔ کچھ برس پہلے عارف وقار نے بی بی سی نیوز کے لیے میرے متعلق رائٹ اپ لکھا۔ اُس وقت انھوں نے کہا؛ رپورٹ انگریزی میں ہے، اِس مناسبت سے ”اے غزال شب“ کے کچھ حصوں کا انگریزی میں ترجمہ کر دیں۔ اُن کے اصرار پر میں نے ترجمہ کیا۔ وہ اتنا پُراثر تجربہ رہا کہ مجھے شدت سے احساس ہونے لگا، اردو زبان میں بڑے ناول کی سکت نہیں ہے۔ وہ Expression نہیں ہے، جو انگریزی میں ہے۔ خیر، اس رائے کو آپ میری کم مائیگی بھی کہہ سکتے ہیں۔
اقبال : اوروں نے تو آپ کے کام کو انگریزی کے قالب میں ڈھالنے کی خواہش ظاہر کی ہوگی؟
تارڑ: ہاں، کچھ لوگوں نے رابطہ کیا۔ انگریزی کے ایک پروفیسر ہیں، ڈاکٹر اسیر۔ انھوں نے بہت عجیب و غریب بیان دیا۔ اُنھوں نے کہا؛ میں اردو ادب کو درخور اعتنا نہیں سمجھتا تھا، مگر ”بہاﺅ“ نے میرے خیالات بدل دیے۔ پھر انھوں نے میرے دیگر ناول بھی پڑھے۔ انھوں نے ”بہاﺅ“ کے ترجمہ کی خواہش ظاہر کی۔ کام شروع کر بھی دیا، مگر کچھ عرصے بعد اُنھوںنے کہہ دیا کہ یہ ممکن نہیں۔ دراصل ”بہاﺅ“ کی سب سے بڑی Attraction ہے، اس کی زبان۔ ترجمے میں وہ سلیس انگریزی میں آجائے گی۔ اگر فقرہ ہے؛ تم نے مجھے موہ لیا ہے، یا وہ رُکھوں کا جھنڈ تھا انگریزی موہ کا Love اور رُکھوں کا Tree ہی ترجمہ ہوگا۔ تو بات نہیں بنے گی۔ عبداﷲ حسین نے اپنے ناول کا خود ہی انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس پر کسی نے اعتراض کیا، تو عبداﷲ حسین نے کہا؛ میں نے بہت انتظار کیا کہ کوئی ترجمہ کرے جب کسی نے نہیں کیا، تو مجھے خود ترجمہ کرنا پڑا۔ اب میں خود ترجمہ نہیں کرنا چاہتا۔ اس سے بہتر ہے کہ انگریزی ہی میں کوئی ناول لکھ دوں۔
اقبال: آپ نے ہمیشہ کہا کہ اردو ادب جمود کا شکار نہیں۔ وہ کون سے عوامل ہیں، جن کی وجہ سے آپ یہ رائے رکھتے ہیں؟
تارڑ: دیکھیں، یہ ایک سلوگن بن گیا ہے۔ ہم قیام پاکستان سے یہ سنتے آرہے ہیں کہ ادب جمود کا شکار ہے۔ پہلے اُنھوں نے کہا کہ کرشن چندر، منٹو اور بیدی چلے گئے، سب خالی ہوگیا، اب کون ہے؟ مگر پھر لوگ آئے۔ اُس نسل کے جانے کے بعد اب نئے لوگ آرہے ہیں۔ اصل میں ادب میں جگہ بنانے میں وقت لگتا ہے۔ ہم نے کچھ کلیشے بنا لیے ہیں؛ ادب جمود کا شکار ہے مطالعہ گھٹ گیا ہے نئی نسل کو پڑھنے کا شوق نہیں۔ یہ باتیں بالکل غلط ہےں۔ نوجوانوں میں پڑھنے کا شوق ہے۔ وہ پڑھ بھی رہے ہیں۔ میری ایسے کئی نوجوانوں سے ملاقات رہتی ہے۔ پھر اگر کوئی کمپیوٹر پر بیٹھ کر کتاب پڑھ رہا ہے، تو وہ بھی مطالعہ ہی کر رہا ہے۔ ایک زمانے میں منٹو، بیدی اور عینی آپا کی کتابوں کے ایک ہی ایڈیشنز برسوں کُتب خانوں میں پڑے رہتے تھے۔ اب جا کر پبلشرز سے معلوم کریں کہ کتنی کتابیں چھپ رہی ہیں۔ پھر ادبی پرچے شایع ہورہے ہیں، جن میں اچھا ادب لکھا جارہا ہے۔
اقبال: آپ کے بیش تر ناولز میں آپ کے تجربات، مشاہدات، آپ کی شخصیت نظر آتی ہے۔ کیا آپ ذاتی تجربات کو تخلیقی عمل کی بنیادی شرط سمجھتے ہیں؟
تارڑ: ہر ایک کا اپنا اپنا پیٹرن ہوتا ہے۔ مجھے اپنی آوارہ گردی کا Edgeحاصل ہے۔ میں اُسے استعمال کرتا ہوں۔ اِس طرح میری شخصیت تحریر میں آجاتی ہے۔ پھر جتنے بڑے ناول ہیں، وہ سب Semi-Autobiographies ہیں۔ ہیمنگ وے کے تمام ناول ہیں ہی Semi-Autobiographies ہیں۔ میرے ناولوں میں یہ بات پکڑی جاتی ہے، کیوں کہ لوگ میری ذاتی زندگی کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، لیکن جو نہیں جانتے، ان کے لیے وہ خالص فکشن ہے۔
اقبال: آج کل الوہیت کو بنیاد بنا کر کمرشل بنیادوں پر لکھے جانے والے ناولز کا چرچا ہے، آپ اِس تجربے کو کیسے دیکھتے ہیں؟
تارڑ:Trands بدلتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک Trands ہے، جو کچھ عرصے رہے گا، اپنا اثر چھوڑے گا، پھر ختم ہوجائے گا۔
اقبال : پاک و ہند کے ان ادیبوں کو جو انگریزی میں ادب تخلیق کر رہے ہیں، بین الاقوامی اعزازت سے نوازا جارہا ہے۔ اِس کا سبب ان کی تخلیقی قوت ہے یا مغرب کی اِس خطے میں بڑھتی دل چسپی؟
تارڑ: دیکھیں یہ ایک لمبی بحث ہے۔ میں نے اِس پر لکھا بھی ہے۔ میرے نزدیک اس وقت، برصغیر میں جو انگریزی ناول لکھے جارہے ہیں، وہ کچھ برس بعد پاکستان اور ہندوستان میں تو Reference کے طور پر باقی رہیں گے، مگر باقی دنیا میں ان کا کوئی Reference نہیں ہے۔ جب آپ موجودہ عہد کے بڑے لکھاریوں کی بات کرتے ہیں، تو یہ رائٹرز اُن میں یہ نہیں آتے۔ ان کا ہوسے سارا ماگو اور اورحان پامک سے موازنہ نہیں ہے۔ یہ ایک عارضی مرحلہ ہے۔ کسی نے مجھ سے کہا تھا، اور یہ بات میں نے دہرائی بھی کہ اِس خطے کے انگریزی ناول نگار بلبلوں کی طرح ہیں، انھیں پتا ہی نہیں کہ تہ میں کیا ہے۔
اقبال : تو پھر بین الاقوامی توجہ کا سبب کیا ہے؟
تارڑ: دراصل وہ موضوعات ایسے لے رہے ہیں، جو آج بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، مثلاً دہشت گردی، افغانستان، عراق، آمریت۔ اچھا ایسا نہیں ہے کہ سب ایک جیسے ہیں۔ کچھ اچھے لکھنے والے بھی ہیں۔ محمد حنیف اچھا رائٹر ہے، اُس سے میری بڑی دوستی ہے۔ اس کا پہلا ناول A Case of Exploding Mangoes مجھے بہت اچھا لگا۔ البتہ Our Lady of Alice Bhatti مجھے گرفت میں نہیں لے سکا، گو اُس کی انگریزی اچھی تھی، Description اچھی تھی۔ مثلاً ندیم اسلم جو ہے، اُس کا ناول Maps for Lost Lovers پڑھا۔ بہت اچھا تھا۔ البتہ اس کا پہلا ناول Season of the Rainbirds بہت برا تھا۔ اس نے گیلری کے لیے لکھا تھا۔ کسی نے مجھ سے محسن حامد کے پہلے ناولMoth Smoke کے متعلق پوچھا۔ میں نے کہا؛ آپ مجھے کاغذ قلم دے دیں، میں صبح تک اس سے بہتر ناول، انگریزی میں لکھ کر دوں گا۔ وہ برا ناول تھا، البتہ اس کا دوسرا ناول The Reluctant Fundamentalist بہتر تھا۔ میرے نزدیک اب انھیں خود محسوس ہورہا ہے کہ شہرت تو حاصل ہوگئی ہے، مگر ہم نے اپنا اصل بیان نہیں کیا۔ تو اب وہ بھی دھیرے دھیرے بدل رہے ہیں۔
اقبال : آپ نے خاصا لکھا، کبھی ایسا محسوس ہوا کہ آپ خود کو دہرا رہے ہیں؟
تارڑ: نہیں۔ دراصل جب لکھتے ہوئے مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اِس خیال یا پیٹرن پر میں پہلے ناول لکھ چکا ہوں، تو میں لکھنا ترک کر دیتا ہوں۔ صرف دو ناول ”راکھ“ اور ”خس و خاشاک زمانے“ کا پیٹرن ایک ہے۔ باقی سب کے موضوعات ہی الگ ہیں۔ ”قلعہ جنگی“، ”ڈاکیا اور جولاہا“ اور ”اے غزال شب“ بالکل الگ ہیں۔ میں پیٹرن ہی بدل دیتا ہوں۔ مجھے سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ آیندہ کے لیے میرا کیا منصوبہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ میں شاید آیندہ کوئی ناول نہیں لکھ پاﺅں۔ البتہ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہوتا یہ تھا کہ ناول لکھتے ہوئے میں دیگر کام بھی ساتھ ساتھ کرتا رہتا ہوں، سفرمانہ، کالم وغیرہ۔ تو شروع میں ناول کے دوران ہی کوئی خیال تشکیل پانے لگتا تھا۔ اور اِس ناول کو ختم کرکے میں اس پر کام شروع کردیتا۔ اِس بار ”اے غزال شب“ لکھتے ہوئے کسی خیال یا شے نے ذہن میں جڑ پکڑی نہیں۔
اقبال: ”پیار کا پہلا شہر“ پر بات کرتے ہوئے اُس جادو کا تذکرہ آیا، جس نے قارئین کو گرویدہ بنا لیا، مگر جس سے آپ لاعلم ہیں آج دنیائے ادب میں طلسماتی حقیقت نگاری کا چرچا ہے۔ مارکیز کے مانند آپ کو پڑھتے ہوئے بھی محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت کے ساتھ جادوئی عناصر چل رہے ہیں۔ اسلوب کی اس مماثلت کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
تارڑ: ہاں میرے یہاںیہ عوامل ہیں، اور بہت زیادہ ہیں۔ میرے خیال میں اردو کے کسی اور ناول نگار نے یہ پیٹرن استعمال نہیں کیا۔ میرا ناول ہے؛ پکھیرو، جس کا بعد میں مَیں نے اردو میں ترجمہ کیا۔ جب 1970 میں مارکیز کا ناول One Hundred Years of Solitude انگریزی میں آیا، تو چند لوگوں نے کہا کہ تارڑ صاحب یہ پیٹرن آپ نے وہاں سے لیا ہے۔ میں نے جواب میں کہا؛ جب پکھیرو چھپا تھا، اُس وقت تو One Hundred Years of Solitude تھا ہی نہیں۔ ہمارا اپنا بھی تو Potential ہے۔ اِس خطے کی بھی اساطیر ہے، جادو اور پریاں ہیں۔ اب ”داستان امیر حمزہ“ میں نے پوری پڑھی ہوئی ہے۔ جس کا مجھ پر سب سے زیادہ اثر رہا، وہ فریدالدین عطار کی کتاب ”منطق الطیر“ ہے۔ اُس کا بار بار میرے ہاں حوالہ آتا ہے، پرندے۔ سچ کی تلاش۔ میرے ناول ”خس و خاشاک زمانے“ کا پورا باب، تقریباً ستر صفحات اسی پر Base ہیں۔ تو یہ Inspiration ہماری اپنی ہے۔ یہ Imported نہیں۔ ہاں، میں ان سے متاثر ضرور ہوتا ہوں، مگر پیٹرن میں اختراع کرتا ہوں۔
اقبال: بائبل کے اسلوب نے بھی متاثر کیا؟
تارڑ: نہیں۔ پرانے قصّے کہانیوں کی حد تک تو، مگر ادبی سطح پر نہیں۔ دراصل مجھ پر قدیم چینی شاعری کا بہت اثر ہے۔ دراصل جو کچھ آپ نے پڑھا ہوا ہے، وہ کہیں نہ کہیں ظاہر ہوتا ہے۔
اقبال: ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھنے والوں کو کوئی مشورہ؟
تارڑ: مطالعہ کریں۔ اور ہر قسم کا مطالعہ۔ ایک ناول نگار کو زندگی کے ہر طبقے کا تجربہ ہونا چاہیے۔ تاریخ بھی پڑھیں، فلسفہ بھی پڑھےں۔ اور بیرونی ادب ضرور پڑھےں۔
اقبال: آپ کے خیال میں اردو ادب کو بین الاقوامی دنیا میں متعارف کروانے کے لیے ہمیں کن خطوط پر کام کرنا ہوگا؟
تارڑ: ہم پاکستانی ادیب کنویں کے مینڈک ہیں۔ ہم اپنی تخلیقات کے لیے بین الاقوامی معیار کی بات کرتے ہیں۔ کہانی کی سطح پر تو شاید کہیں کوئی معیار ہو، مگر ناول میں ہم کہیں نہیں کھڑے۔ پہلے تو اِس خیال سے جان چھڑانی ہوگی۔ پڑھنا ہوگا۔ ساتھ ہی ترجمے کی جانب توجہ دینی ہوگی۔
اقبال: کیا ادب نظریے سے بالاتر ہے؟
تارڑ: نظریہ تو اُس کی By Product ہے۔ چند روز پہلے ڈاکٹر لڈمیلا سے بات ہورہی تھیں، اُنھوں نے کسی روسی ادیب کا جملہ دہرایا کہ ”روس میں اکتوبر انقلاب سے پہلے بڑا ادب پیدا ہوا، اکتوبر انقلاب کے بعد بڑا قاری پیدا ہوا۔“ یہ بات دُرست ہے۔ روسی بہت پڑھتے ہیں۔ میں نے خود اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ تو خیر، ادب بلاشبہہ برتر ہے۔
اقبال: ادیب پر اصلاح معاشرے کی شرط عاید کی جانی چاہیے؟
تارڑ: نہیں، بالکل بھی نہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس طرز میں جبر اور آمریت آجاتی ہے کہ اِس طرح کا نظام ہونا چاہیے، اور اِس طرح کا نہیں۔ ہاں، ادب میں جو نشان دہی کی جاتی ہے، اسے دیکھ کر معاشرہ تو اپنی اصلاح کرسکتا ہے، مگر وہ ادب فقط اصلاح معاشرہ کوسامنے رکھ نہیں لکھا گیا ہوتا۔
اقبال: کیا دنیا میں ایسا ادب بھی تخلیق ہوا، جس میں خیر اور شر کی تفریق نظر نہیں آتی، خیر کی حمایت نہیں کی جاتی؟
تارڑ: ہوتا ہے، بالکل ہوتا ہے۔ اور وہ بھی بڑا ادب ہے۔ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دراصل خیر کی بھی مختلف جہتیں ہیں۔ اپنا اپنا نقطہ ¿ نگاہ ہے۔ البتہ انسانیت غالب رہتی ہے۔
اقبال: کیا کتابوں کے رائلٹی گھر چلانے کے لیے کافی ہے؟
تارڑ: اب نہیں چلتا، پہلے چل جاتا تھا۔ اس کی وجہ بڑھتی منہگائی ہے۔ ملازمت میں نے کبھی نہیں کی، کسی زمانے میں کاروبار کیا تھا، مگر ایک مقام پر مجھے فیصلہ کرنا پڑا کہ یا تو کاروبار کروں، یا لکھنے کا کام کروں۔ بیوی نے مشورہ دیا کہ میں ادب تخلیق کروں، کیوں کہ کاروبار میں مَیں خوش نہیں رہوں گا۔ میری انکم کا اصل ذریعہ کالم نگاری ہے۔
اقبال: اس سفر میں معاشی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا؟
تارڑ: بالکل۔ ابتدائی دس بار سال بہت ہی برے رہے۔ مگر آج مجھے اس کا دکھ نہیں کہ مجھ پر کٹھن وقت آیا، کیوں کہ یہ میرا اپنا انتخاب تھا۔ اچھا بھلا کاروبار اور زندگی چھوڑ کر یہ کام شروع کیا۔ یہ میری اپنی مرضی تھی۔
اختتامیہ
بہ ظاہر تو یہ مکالمہ لاہور میں تمام ہوا، مگر حقیقت کی دنیا میں یہ جاری رہا، میرے اندرون میں۔ اُن بہت سے مکالموں کے مانند، جو بیت چکے زمانے میں میرے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ اُس وقت تک، جب تک اُنھیں لکھ نہ لیا جائے۔
تو میں نے اِس مکالمے کو الفاظ میں ڈھالا۔ تحریری شکل دی۔ اور تب اِس انکشاف کے روبرو ہوا کہ یہ مکالمہ اب بھی مجھ میں چل رہا ہے۔
اور پھر اِس قصّے میں ایک موڑ آیا۔ کراچی میں تارڑ کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اور تب میں نے اُسے دیکھا (گو پہلے بھی دیکھ چکا تھا)، اور اُسے سنا، (گو پہلے بھی سن چکا تھا)
مجھے وہ توقع سے زیادہ پُراسرار اور تروتازہ محسوس ہوا

Post a Comment