اسلم کولسری
ہلکی سی حرارت پوروں کی، چن لیتی درد جہانوں کے
ان ھونٹوں کی اک جنبش سے کھل جاتے بھید زمانوں کے
ملبوس پہ سو پیوند لگے اور کالی کملی کاندھوں پر
اس حال میں بھی مسمار کئے دربار کئی سلطانوں کے
ہر شخص پہ وحشت غالب تھی، ھر تیغ لہو کی طالب تھی
اس لہجے کی نرماھٹ نے دل موم کئے حیوانوں کے
انگلی کے ایک اشارے سے مہتاب اگر دو نیم کیا
پلکوں کی ذرا سی لرزش سے رخ پھیر دئے طوفانوں کے
اک ہول بھری تاریکی میں یوں شمع محبت روشن کی
پر کھول دئے پروانوں کے، دن پھیر دئے دیوانوں کے

Post a Comment