افضال نوید
یوں تو سارا شجر ثمرور تھا
شاخِ بالا پہ میرا ساغر تھا
شب جو اندوہِ شام سر پر تھا
شعلۂِ مہر سے برابر تھا
روزنِ اندروں کدھر تھا کہ مَیں
بھر کے بھی آہِ سرد دوبھر تھا
جھُک رہی تھیں نجوم کی ڈاریں
شام تھی اور مرا صنوبر تھا
کوئی آواز دے رہا تھا مجھے
میں مگر آئینے کے اندر تھا
کن جھروکوں سے دیکھتا رہا تُو
وہ جھروکا جو آسماں پر تھا
ریت میں مل رہے تھے ہم دونوں
تُو سمندر تھا اور میں پتھر تھا
شورشِ شب گذیدگاں سے مکاں
بام و در تھا کہ نقشِ محشر تھا
میں بگولہ سا چار سُو تھا نوید
دشتِ افلاک میرے اندر تھا
افضال نوید

Post a Comment