اقبال طارق
یہ جوسب آن بان ہے صاحب
یہ بھی اک امتحان  ہے صاحب
کب مری دسترس میں ماہ ونجوم 
یا کوئی آسمان  ہے صاحب 
کھل ر ہےہیں گلاب سوچوں کے 
وقت اب مہربان ہے صاحب
ٹمٹماتا یہ آرزو کا چراغ 
منزلوں کا نشان  ہے صاحب
خوفِ آسیب سے لرزتا یوں 
دل کا خالی مکان  ہےصاحب
حرف پتھر ہیں اور سینے میں 
آئنوں کا جہان  ہےصاحب
نطق میرا جو  ہےاسی سے  ہے
یہ جو اردو زبان  ہے صاحب

Post a Comment