ڈاکٹر سعادت سعید
رات
ہولناکی میں اس زفیل جیسی ہے
جس سے کارواں ٹھہرے
جس سے گھونسلے اجڑے
ذات
کج کلاہی میں مست فیل جیسی ہے
جس پہ حملہ آو ر مُور
جس کی آنکھ ہے بے نُور
بات 
بے نوائی میں اس وکیل جیسے ہے
جس کے ہونٹ مل جائیں 
جس کے کان سل جائیں
مات 
بے گناہی میں اس قتیل جیسی ہے
جس سے روشنی زائل
جس سے زندگی گھائل
گھات 
بے ثباتی میں اسرافیل جیسی ہے
آدمی خس و خاشاک
خاک میں ملے افلاک

Post a Comment