ہم نے دیکھ رکھی ہیں منصفوں کی تحریریں
اُڑ رہی ہیں رستوں میں فیصلوں کی تحریریں
چاہے وہ زمیں پر ہو یا ہو آسمانوں میں 
ہاتھ میں نہیں ہوتیں قسمتوں کی تحریریں
خواب لکھنے بیٹھا ہے سوچ لے مگر اتنا 
منہ چڑایں گی تیرا خواہشوں کی تحریریں
موسمی پرندوں کی داستاں کو کیا پڑھنا 
ختم ہی نہیں ہوتیں ہجرتوں کی تحریریں
پھر تو اپنا سایہ بھی اجنبی سا لگتا ہے
جب ہوا میں شامل ہوں سازشوں کی تحریریں
علم کے گلستاں میں کچھ نہیں بچا ثاقبؔ
کیا قلم کی رعنائی کیا گلوں کی تحریریں

Post a Comment