سعادت سعید

وہ میرا آشنا کہ تھا
عذاب ِ جاں میں مبتلا
کِھلی ہوئی تھی ذہن میں
کتاب رنگ چاندنی
کشادگی سے ہم کلام
زعفرانی آگہی
حیات ِ نَو کی اَبتری کے سامنے ڈٹا رہا
شعور کی فسُوں گری کا
سلسلہ بنا رہا
بصیرتوں ' بصارتوں کی
روشنی کا اِسم تھا
رفاقتوں کی حِیلہ جُو
شگفتگی کا اِسم تھا
وہ کُوے فکر ِ واجِبی کے
بوزنوں سے تنگ تھا
ہر ایک بَد مقال کی
عداوتوں سے تنگ تھا
وہ اِنتظار ِ مِیرٹھی کی
پَستیوں پہ نُکتہ چِیں
قیامتوں کی وِحشتوں پہ
مَستیوں پہ نُکتہ چِیں
ملاحتوں کی " بَستیوں " کی
ہَستیوں پہ نُکتہ چِیں
" چراغ ہاے سرد " کا دُھواؑں تھا
اور مَوت تھی
وہ ایک دَور ِ رایگاں کی بجلیاں تھیں
مَوت تھی
بس ایک اُجڑے کارواں کی ہچکیاں تھیں
مَوت تھی

Post a Comment