لہو کی لہر میں کیا کیا کمالتے رہے ہیں
جلیل عالی
حصارِ وقت سے رستے نکالتے رہے ہیں
سمے کی شکر دوپہروں جھلستی سانسوں کو
تمہاری یاد کے جھونکے بحالتے رہے ہیں
عَلم انا کے گراتی رہی ہے تیغِ عدو 
یہ سورما کہ فقط سر سنبھالتے رہے ہیں
دلوں میں کیسے اُترتی کرن بصیرت کی
جب اپنا سوچ اثاثہ مغالطے رہے ہیں
تو کیا یہ طے ہے کہیں شہر اُس مثال نہ ہو
کہ جس جمال اِسے ہم خیالتے رہے ہیں
کہا جو ساعتِ سر مست میں قلندر نے
شب اُس پہ دیر تلک دل دھمالتے رہے ہیں
لکھے ہیں گوندھ کے خوشبوئے خاک میں عالی
جو لفظ چاند ستاروں سے ڈھالتے رہے ہیں

Post a Comment