اسلم کولسری
خیال خام تھا یا نقش معتبر، نہ کھلا
دلوں پہ اس کا تبسم کھلا، مگر، نہ کھلا
محیط چشم تمنا بھی تھا وہی، جس پر
کسی طرح بھی مرا نقطہ نظر نہ کھلا
عجیب وضع سے بے اعتباریاں پھیلیں
غریب شہر کی دستک پہ کوئی در نہ کھلا
نہیں کہ خندہء مفلس ہےباب شنوائی
کبھی کھلے گ اگر مدعی کا سر نہ کھلا
قدم قبول ہوئے، راستوں کی دہول ہوئے
سفر تمام ہوا، مقصد سفر نہ کھلا
بڑی طویل کہانی ہے دل کے بجھنے کی
کہ ایک شخص تھا اور قصہ مختصر، نہ کھلا
متاع شب تھے، سو، اسلم فگار آنکھوں کے
چراغ داغ ہوئے، روزن سحر نہ کھلا

Post a Comment