عارفہ شہزاد

اگر ہم لفظ ہوتے تو
یہ سارے لوگ خود ہم کو
حسیں جملوں کی مالا میں پرو دیتے
کبھی ہم نظم کے مصرعوں میں ڈھلتے
یا غزل کا شعرہو جاتے
سبھی سے داد تو پاتے!
اگر ہوتے جو ہم سرگم کے دو میٹھے سریلے سر...
خوشی کے راگ میں ڈھل کر
سماعت میں ...
مدھر سا رس تو ٹپکاتے!
اگر ساگر کی ہوتے لہر ہم
اٹھکیلیاں کرتے ہواؤں سے
مبرا ہو گۓ ہوتے
ہر اک تعزیر سے، ساری خطاؤں سے
کبھی ہم تم...
شرارت سے بہم مل کر...
بہت سی سیپیاں ساحل په بکھراتے
اڑاتے جھاگ بے فکری سے...
مل کر شور کرتے
اور لپٹ کر ایک دوجے سے
کسی انجان ساحل تک بھی ہو آتے
سراغ زندگی پاتے!
مگر ہم کون ہیں؟
اور کیوں بھٹکتے پھر رہےہیں 
اس گھنے جنگل میں یوں گم سم
یہاں میں ہوں ...
کہاں ہو تم؟؟؟

Post a Comment