چھوٹی بحر میں لفظوں کی بندش سے خیال آفرینی قادرالکلامی کی دلیل ہے اس پر معنویت کا بھرپور ابلاغ سونے پر سہاگہ کا کام کرتا ہے۔حیدر علی ساحر  جرآت کے اظہار میں حیدر ہے  اور قاری کو مسخر کرنے میں ساحر ہے۔
حیدر علی ساحر کا قلم چھوٹی بحروں میں بڑی بات کہنے میں بڑی روانی سے چلتا ہے.
پہلے دریا بھی شور کرتا ہے
پھر سمندر میں ڈوب جاتا ہے
جون کیٹس نے کہا تھا کہ جدیدیت نت نئے استعارے اور علامتیں وضع کرنے کا نام نہیں بلکہ پرانی اور مروجہ علامتوں میں نئے معنی تلاش کرنے میں مضمر ہے۔حیدر علی ساحر کا یہ شعر اپنی معنویت کے اعتبار سے ایک بڑا شعر ہے۔احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا؛
کون کہتاہے  کہ موت آئی  تو مر جاوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاوں گا
اب ذرا غور فرمایئیے اس حقیر سی چھوٹی سی زندگی کے بعد نا ختم ہونے والی ابدی زندگی کا تصور قاسمی صاحب نے کس خوبصورتی سے دو رِسشٹ۵میں بیان کر دیا لیکن اس کے لیئے انہوں نے طویل بحر استعمال کی ہے۔اب آیئیے حیدر علی ساحر کی جانب،وہ کہتا ہے
پہلے دریا بھی شور کرتا ہے
پھر سمندر میں ڈوب جاتا ہے
اس چھوٹی سی حقیر سی زندگی میں  زندہ رہنے کے لیئے انسان سو سو جتن کرتا ہے لیکن  اسے بل آخر ابدی زندگی کے سمندر میں ڈوبنا ہی پڑتا ہے۔
قاسمی صاحب نے زندگی کا فلسفہ کھول کر بیان کر دیا ہے جبکہ حیدر علی ساحر نے یہ بات قاری پر چھوڑ دی ہے کہ وہ خود اس مظلب پر پہنچے جس پر  میں پہنچا ہوں۔
حیدر علی ساحر کا ایک اور شعر دیکھیئیے
میرے مولا یہ التجا ہے مری
ناخداوں کو مت خدا کرنا
دیوار میں دیوار  کے مطالعہ سے حیدر علی ساحر کی شاعری سادہ کاری اور معنی کا ایک سمندر سمیٹے ہویئے محسوس ہوتی ہے۔ 
معنوی اولاد کے عنوان تلے حیدر علی ساحر کا کہنا ہے کہ ..شاعری فقط شاعری نہیں،،میں،، ہوں 
یہ ، میں، کیا ہے،یہ حیدر علی ساحر کے من کی دنیا ہے جس میں ڈوب کر باہر سے آنے والی  ہر چیز اس جیسی ہو جاتی ہے۔سارے جذبے اس کی سوچ کے مطابق ڈھلنے لگتے ہیں۔تھوڑی خوشیاں،تھوڑے غم،تھوڑی محبت، تھوڑی نفرت  اور تھوڑی جھنجلاہٹ،یہ سارے  جذبے ساحر کے اندر پھوٹتے رہتے ہیں۔ اسی لیئے وہ کہتا ہے۔
ایسے ہی رہے گھر کے یہ حالات تو اک روز
دے ماروں گا دیوار میں دیوار اٹھا کر
یہ وہ جھنجلاہٹ ہے جو اس کے اندر معاشرے  کی ناہمواریوں،ظلم، جبر اور استحصال کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔اسی جھنجلاہٹ کے جذبے پر اس نے دیوار میں دیوار بنایئی ہے تاکہ مواشرے کی بدصورتی دیوار میں ہی چنی رہے۔یہ اور ایسے ہی دوسرے جذبے اس کی ذات کا اظہار یہ ہیں۔
ساحر کی شاعری میں بے ساختہ پن کا اظہار دیکھئے  جو اس نے تکرارِ لفظی سے پیدا کیا ہے۔
پیار کے بارے پوچھو تو
کرنا کرنا کرنا ہے
الفاظ کا اس طرح استعمال اس کیفیت  کی منظر کشی ہے  جب عشق  بے اختیار بول اٹھتا ہے لیکن یہ مجنوں والا عشق نہیں ہے اس میں پاسباں ِ عقل بھی ساتھ ساتھ ہے۔
ہمیں اب موسمِ ہجراں میں فنکاری نہیں کرنی
کہ خود پر قیس ایسی کیفیت طاری نہیں کرنی
بہت سے خواب ہم نے اپنی آنکھوں میں سجائے ہیں 
کسی تعبیر کی لیکن طرف داری نہیں کرنی 
جیسا کہ حیدر علی ساحر  نے خود کہا ہے کہ شاعری فقط شاعری نہیں میں ہوں۔شاعری کی اسی زبان میں اس کا کہنا ہے۔
میں اپنے جسم  کے اندر کہیں روپوش تھا ساحر
مجھے بھی کھنچ کے لایا ہے کوئی پیار مٹی کا
پابند زمیں میں تو ساحر کی اٹھان غضب کی ہے، نظم میں بھی اس کا لہجہ غضب کا ہے۔
بھلا ہو اس محبت کا
کہ جس کے روٹھ جانے سے
سبھی کلیاں،سبھی گلشن
سبھی ندیاں، سبھی لہریں 
سبھی جگنو،سبھی تارے
بہت ہی شور کرتے ہیں 
بہت بے چین کرتے ہیں 
بڑا ہی درد دیتے ہیں 
مگر مجھ کو 
فقط اتنا ہی کہنا ہے
محبت روٹھ جائے تو
خدا بھی روٹھ جاتا ہے
خدا کے روٹھ جانے سے
محبت روٹھ جاتی ہے
دیوار میں دیوار، حیدر علی ساحر کا چوتھا مجموعہِ کلام ہے، محبت ساحر کے سر چڑھ  کر بولتی ہے، وہ طویل عرصے سے شاعری کے صحرا  میں تھوڑی خوشیاں، تھوڑے غم، تھوڑی محبت، تھوڑی نفرت لئے صدا لگا رہا ہے۔وہ کہتا ہے میں شعر کہتا ہوں بلکہ جب شعر ہو جائے تومیں آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر شعر گنگناتا ہوں، اک روشنی سی اترتی ہے اور میرے وجود میں سرایت کر جاتی ہے۔ اک نشہ سا مجھے اپنے وجود میں محسوس ہوتا ہے چونکہ مجھے سچے جذبوں کا اظہار کرنا ہے اس لئے میں خود کو اور قلم کو روک نہیں ِِ پایا۔
ساحر؛ اپنے من کی دنیا سے تھوڑی خوشیاں، تھوڑے غم، تھوڑی محبت، تھوڑی نفرت  سمیٹو اور اسے بھرپور جھنجلاہٹ بھرے لہجے میں دنیا کو لوٹا دو۔
آئینے کے سامنے مت کھڑے ہوا کرو
یہ نرگسیت کو جنم دیتی ہے،جو ایک نشہ ہے، خود پسندی ہے اور خود پسندی انسان کو شاعر تو رہنے دیتی ہے لیکن اس کے فن کو جمود کا شکار کر دیتی ہے۔وہ روشنی جو شاعر کو اس کیفیت میں خود میں سرایت کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے وہ دراصل سچے جذبوں کی موت ہے۔اپنی شاعری کو جمود کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے اس میں اور جھنجلاہٹ پیدا کرو۔
آخری بات یہ کہ دیوار میں دیوار جاندار اشعار کا ایک خوبصورت مجموعہ ہے۔
تتلیاں خود بخود نہیں آتیں 
پھول بھی تو انہیں بلاتا ہے
چاندنی اوڑھ کے پھرتے ہوئے لوگوں سے کہو
دھوپ کو ہاتھ لگاو گے تو مر جاو گے

Post a Comment