رضیہ سبحان
مکاں سے دُور کہیں لامکاں میں رہتی ہوں
زمیں پہ ہوتے ہوئے آسماں میں رہتی ہوں
ہے جسکے ہاتھ میں یہ باگ ڈور عالم کی
بہت سُکون سے اُسکی اماں میں رہتی ہوں
خبر جو لینے چلے ہو یہ حالتِ دل ہے
مجھے خبر ہی کہاں کس جہاں میں رہتی ہوں
ورق ورق پہ ہیں پھیلے حروفِ نا بینا
محبتوں کی ہر اِک داستاں میں رہتی ہوں
حصولِ عشق کی سب کاوشیں ہیں لا حاصل
میں دسترس سے پرے اک جہاں میں رہتی ہوں
ہر اک طلب سے ہوئی بے نیاز و بیگانہ
بسا کے دل میں اُسے آستاں میں رہتی ہوں
سفیر بنکے ہواؤں کی دُور تک جاؤں
میں مشتِ خاک ہوں موجِ رواں میں رہتی ہوں

Post a Comment