دبستانِ ساھیوال کے ایک منفرد اور یکتا شاعر گوہر ہوشیارپوری نے اب سے اٹھارہ سال پہلے زیرِ نظر کتاب،زیرِآب چراغ،کے خالق غضنفر عباس سید کی شاعری پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ غضنفر عباس سید دنیائے شعر کا ایسا،،کولمبس،، ہے جس نے اس معاشرے کے تمام رنگ اور تمام پہلو،اقدار کی شکست و ریخت اور عصری چہرگی اور بے چہرگی کی جلوٹ نہ صرف آنکھوں سے دیکھی بلکہ دل سے محسوس کی ہے وہ اپنی اس بات کی تائید میں غضنفر عباس سید کا یہ شعر پیش کرتے ہیں۔
میرے بدن پہ میرے ہی غم کا لباس ہے
یہ پیرہن کسی کا اتارا ہوا نہیں ہے

ایک اور جگہ گوہر ہوشیار پوری کے حوالے سے  غضنفر عباس سید کے بارے ان کایہ فقرہ بھی پڑھنے کو ملا کہ غضنفر،بات کو پھول بنا دیتا ہے،
زیرآب چراغ میں غضنفر عباس سید نے ابتدائی ایک تہائی صفحات میں دبستانِ ساھیوال کے ہر اس قابلِ ذکر کی رائے درج کی ہے جو ادب کے میدان میں اہمیت کا حامل ہے۔یہ تمام رائے گذشتہ اٹھارہ سال میں دی گئیں ہیں جو اس بات پر دلیل ہے کہ اس مجموعے میں شامل شاعری اٹھارہ سال پہلے تک کی ہے۔
 غضنفر عباس سید نے گذشتہ اٹھارہ سال میں جو شاعری کی ہے کیا یہ رائے اس کی موجودہ زمانے کی اٹھان کا احاطہ کرتی ہیں؟
گذشتہ اٹھارہ سال میں ملکی سیاسی اور سماجیات نے کئی کروٹیں لی ہیں۔معیشت اور معاشرت میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں کیا  غضنفر عباس سیدنے ان کا احاطہ اپنی شاعری میں کیا ہے؟یہ وہ باتیں ہیں جن کا جواب ہمیں غضنفر عباس سیدکی شاعری میں تلاش کرنے ہیں۔

عجب طرح سے ہوئی اب کے میری ذات اسیر
بدن قفس میں ہے،سایہ قفس سے باہر ہے
گذشتہ دو دہائیوں میں انسانی زندگی جن مشکلات و مصائب میں مبتلا رہی ہے اس میں قلمکار کو تخلیق کے سلسلے میں جس کرب کا سامنا کرنا پڑا ہے غضنفر عباس سیدکا یہ شعر اسی کرب کی تفسیر ہے،قلمکار اگر کھل کر کچھ لکھنے سے قاصر کر دیا جائے تو وہ اپنی بات کا اظہار کر ہی دیتا ہے۔ غضنفر عباس سید کا ایک اور شعر دیکھئیے
ابھی سمیٹ رہا تھا میں دل کے ریزوں کو
کہ میری روح میں گھلنے لگا عذاب نیا
 غضنفر عباس سید
 غضنفر عباس سیدکے تخیل کی پرواز دیکھئیے جو وسعتِ معنی کا ایک سمندر لئے ہوئے ہے۔ایک پورا عہد نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔
واجب ہے اس لئے بھی بہاروں کا احترام
سبزہ میرے وجود کا پہلا لباس تھا
اس وقت ملک کا گوشہ گوشہ لہو لہو ہو رہا ہے ایسے میں ایک حساس لکھاری کس طرح خاموش رہ سکتا ہے۔
کہاں عذاب ہے ایسا،کہاں یہ قہر تمام
لہو میں ڈوب گیا،روشنی کا شہر تمام
بشر کا لگ گیا انسانور کے منہ کو لہو
فضا میں گھل گیا فکرونظر کا زہر تمام
کراچی اور دوسرے علاقوں میں خاک و خون کے سمندر کو غضنفر عباس سید نے کیا خوب باندھا ہے اور اپنی لفظیات میں مجیدامجد کا استعمال کردہ  لفظ انسانوراتنی خوبصورتی سے  استعمال کیا ہے کہ یہ لفظ اپنے معنی کا بھرپور ابلاغ کرا رہا ہے۔
شاعری میں کردار نگاری کوئی نئی چیز نہیں ہے مثنوی میں  ایک داستان منظوم کی جاتی ہے۔شاعری میں اقبال ہوں یا مجید امجد سبھی نے مکالمے سے شاعری پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے۔یہ جدید رویہ نئی نسل میں بھی منتقل ہوا ہے۔ غضنفر عباس سیدکی نظم،شاعر اور کلرک،یا پھرمجیدامجد کے لئے ایک نظم،،۔۔۔۔کون دیکھتا ہے،، منظرکشی اورکردار نگاری کی عمدہ مثال ہے۔
دو پہیوں کے ارض و سما کا
جستی دستہ تھامے
دو رویہ پھولوں سے گذرتی
بجریلی،حساس سڑک پر
سایہ ایک رواں ہے
پیہم محوِ گماں ہے
اینٹوں کا ہم عمر یہ سایہ
جس کا راہ میں بچھا ہوا دل
روند رہی ہیں 
آتے جاتے بے رخ قدموں کی یلغاریں 
لہجوں کی تلواریں 
 غضنفر عباس سیدکی شاعری معاشرے کی ابن الوقتی کی عکاس شاعری بھی ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔دل بدلتے ہیں تو چہرے بھی بدل جاتے ہیں۔ غضنفر عباس سید کہتا ہے۔
دستار صبح سَر سے اترنے کی دیر تھی
میرے مصاحبوں کا رویہ بدل گیا
اب کیا بتائیں کتنے مراسم تھے اس کے ساتھ
جو آج مجھ کو دیکھ کے رستہ بدل گیا
 غضنفر عباس سید نے اپنی شاعری کو،،زیر آب چراغ،، کا عنوان دیا ہے۔ہمارے ملک کی ایک اہم شاعرہ بسمل صابری کا کہنا ہے
وہ اشک(عکس) بن کے میری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
میرے خیال میں غضنفر عباس سید بھی زیرِ آب چراغ کی اصطلاح کو ایسے ہی پس منظر میں استعمال کرتا ہے۔
کھلتا نہیں مہتاب کہ روشن ہے شب تاب چراغ
عکس ِ خیال ہے آنکھوں میں یا زیر آب چراغ
 غضنفر عباس سید کا یہ مجموعہ خوبصورت اشعار سے بھرا پڑا ہے۔ان میں سے چند اشعار:
شوق سے کر ہمیں رسوا سرِبازار مگر
بنتِ حوا کے بدن پر تو قبا رہنے دے
جب بھی آنچ آئی کبھی سچ پہ تو ہم ہی آخر
نوکِ نیزہ پہ سجے، تیغ و تبر سے گذرے
سیکھے کوئی پرند سے ہجرت کا فلسفہ
جلنے لگے شجر تو ٹھکانہ بدل گیا
بھٹک کے رہ گیا دلکی غلام گردشوں میں 
جو زندگی کے سبھی راستوں سے واقف تھا
ابھی نہ رکھ تو مرے سر پہ اس زمین کا بوجھ
ابھی تو سر پہ ہوں میں آسماں اٹھائے ہوئے
کس سے انسان پناہیں مانگے
ظلم جب فرماں روا ہے صاحب
میں کر رہا ہوں نئے معرکے کی صف بندی
سو اب کے ڈر مجھے احباب کے عقب سے ہے
کوئی تو لائے غضنفر نظامِ نو کی ہوا
فضائے صبح وطن محوِ یاس کب سے ہے
ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ،، غضنفر عباس سید کی شاعری بے پناہ امکانات کی حامل ہے جنہیں وہ روبراہ کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے جبکہ اسے اپنے لہجے کو مزید جدید اور منفرد بنانے کی ضرورت ہے معاصر شاعری کا مطالعہ جس کے لئے مدد گار ہو سکتا ہے،،ہمیں ظفر اقبال کی بات سے اتفاق ہے لیکن معاصر شاعری کا مطالعہ بسا اوقات کسی نمایاں شاعری کی تقلید پر مجبور کر دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوان ان متاثرہ غزلوں کی زمین استعمال کرتے ہوئے شاعری کرنے لگتے ہیں 
 غضنفر عباس سید نے کئی جگہ ظفراقبال کے مشورے پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے مثال کے طور پر غضنفر عباس سید کی ایک غزل کا شعر ہے
سنا ہے راہرو اس کو پلٹ کے دیکھتے ہیں 
سو ہم بھی اس کو ذرا خود سے کٹ کے دیکھتے ہیں 
اس غزل سے ہمیں احمد فراز کا لہجہ جھلکتا نظر آ رہا ہے اسی طرح ایک اور غزل میں ہمیں متحدہ عرب امارات میں مقیم معروف  شاعرسحرتاب رومانی کا انداز دکھائی  دے رہا ہے،جس کا ایک شعر ہے
نہیں کہ بس لب و رخسار دیکھ سکتا ہوں 
میں عکسِ نیتِ ذخار دیکھ سکتا ہوں 
یہ درست ہے کہ زمین کسی کی میراث نہیں ہوتی، جو شاعر کسی زمین میں بہتر شعر کہہ لیتا ہے،یہ اسی کی ہو جاتی ہے لیکن ہونا یہ چاہئیے کہ صرف زمین استعمال کی جائے شاعری کی بنت اور ردیف قافیہ ویسا نہیں ہونا چاہئیے۔میں سمجھتا ہوں نوجوان شعراء کو ایسا مشورہ دینے سے پرہیز کرنا چاہئیے جس سے شاعری میں توارد کا تاثرپیدا ہو۔ان دو غزلوں کے علاوہ زیرآب چراغ کی باقی غزلیں اپنی فکر  بند ش  اور اسلوب  کے اعتبار  سے کڑی ہجرتوں کی داستان ہے۔
آخر میں ایک اور قابلِ ذکر شعر جو مجموعے کا بھی آخری شعر ہے اور میرے جائزے کا بھی۔
نہیں یہ کتاب ِسخن فقط،میرے ہمنوا ذرا غور کر
تیرے دستِ حرف شناس میں کڑی ہجرتوں کا حساب ہے

Post a Comment