انور زاہدی
کیا طلسم شام تھا کہ دل نہیں بہلا وہاں
اُس نے آنکھوں کو اُٹھایا سحر تھا پھیلا وہاں
خُوشنُما چہروں کی رُت میں رنگ تھے بکھرے ہوئے
دل مگر بے چین تھا خوشیوں کا ریلہ تھا وہاں
ڈُوبتا دن اور گلے ملتی ہوئ کیا شام تھی
آرزووں کے جلو میں شوق کا ریلہ وہاں
کیا گرج تھی آسماں پہ بادلوں کے درمیاں
شام تھی پھیلی ہوئ میلے میں دل دہلا وہاں
اک دفعہ دیکھا تھا اُس خوش رو اک محفل میں بس
پھر نہ وہ محفل سجی اور نہ لگا میلہ وہاں

Post a Comment