سعادت سعید
تحریر: عابد حسین عابد
ڈاکٹر سعادت سعید ایک نظریہ ساز نقاد ہی نہیں بلکہ ان کا شمار ہمارے عہد کے چنیدہ نظم گو شعراء میں ہوتا ہے۔ آپ 1963 سے اردو ادب کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان کا ابتدائی وقت مجید امجد کے ساتھ گزرا۔ 1967 میں ساہیوال سے لاھور تشریف لائے اور اس وقت کے جیٌد لکھاریوں پر تنقیدی مضامین لکھے اور اپنی الگ شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے ڈاکٹر عزیزالحق کی رفاقت میں حلقہ اربابِ ذوق کے پلیٹ فارم پر ترقٌی پسند نظریات کی ترویج کے لئے بہترین خدمات سر انجام دیں۔ 

لسانی تشکیلات کے حوالے سے ان کا نام ایک معتبر حوالے کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ان کی نظمیں گہرے عصری شعور کا پتہ دیتی ہیں۔ انہوں نے اپنی تخلیقات میں طبقاتی نظام اور عالمی سرمایادارانہ ہتھکنڈوں پر کھل کر تنقید کی ہے۔ انسانوں کو غلامی کی نئی شکلوں میں ذلٌت آمیز زندگی گزارتے دیکھ کر ان کے حرف شہرآشوب کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ آجکل ڈاکٹر صاحب انجمن ترقٌی پسند مصنٌفین پاکستان کے مرکزی نائب صدر اور صوبہ پنجاب کے صدر کی حیثیت سے اپنا متحرک کردار ادا کر رہےہیں۔ ان کی ایک نظم آپ سے شئیر کرتا ہوں ملاحظہ کیجیے،
جب موت اور ظلم 
جب موت اور ظلم کی وحشی آنکھیں 
روشندانوں اور دریچوں سے
جھانکنے لگتی ہیں 
میں شاعری کی
(جینے کی کونپلیں 
جگاتی شاعری کی)
خندقوں میں پناہ لیتا ہوں! 
اپنے گمشدہ وجود کی
ستاروں ایسی جھلملاہٹ 
مرے کمرے کی دیواروں اور چھتوں پر
نمودار ہوتی ہے 
میں اپنے بستر کی ریگستانوں میں 
دفن ہو جاتا ہوں 
مرے مرنے کی خبریں 
تمام شہروں میں 
اشتہاروں کی صورت چپکا 
دی جاتی ہیں 
موت کے پیغامبر، ظلم کے وارث 
مرے پاس 
مری ہی تعزیت کے لئے آتے ہیں 
میں کہتا ہو:
’’بھائیو! میں زندہ ہوں‘‘ 
پھر بھی ان کے جابر ہاتھ 
انتہائی بے رحمی سے 
مرے دروازے سے باہر 
مرے نام کی تختی پر
مرا کتبہ آویزاں کر دیتے ہیں
میں سوچتا ہوں 
مرے پاس 
مری زندگی کا جو ساتھی آنے والا تھا 
نہ جانے کب آئے گا 
میں نے اس کے لیے اپنی پلکوں کا
پیرہن تیار کیا ہے 
آرزوؤں کے رشتوں میں 
اپنے گوشت کے ٹکڑے پرو کر 
سیج سجائی ہے! 
آنے والا نہ جانے کب آئے 
اسے کہنا،اے بے صبر تمناؤ!اسے کہنا: 
’’مجھے ماتمی لبادوں سے نفرت ہے 
مری پلکوں کا
پیرہن پہننا 
مہکتی آرزوؤں کی 
سیج پر سجنا 
مرے پاس آنا‘‘

Post a Comment