انور زاہدی
دن گزرتا نہیں ہے وحشت میں
رات کٹتی نہیں ہے ظُلمت میں
بے قراری سی ایک رہتی ہے
بات بھاتی نہیں طبیعت میں
شام کا ہجر ہے پہاڑ سا دن
دن سرکتا نہیں ہے فُرصت میں
صُبح ہوتی ہے شام آتی ہے
رات آتی ہے ایک فُرقت میں
صحن میں کون پھرتا رہتا ہے
رات کی بھیگی بھیگی صحبت میں
دل کی دھڑکن میں کوئ رہتا ہے
پہر چاروں ہی کوئ چاہت میں

Post a Comment