علی اصغر عباس
آنکھ سے آنکھ جو ملا دوں گا
نشہء خواب میں بڑھا دوں گا
رات کی رات تُو ملا تو کر
میں تجھے چاندنی بنا دوں گا
جب بھی تنویر_ آفتاب ملی
میں اُسے رات کا پتہ دوں گا
اک سحرتاب جب بھی یاد آئی
میں اُسے شام میں گنوا دوں گا
کھول کر روزن_ شباب کبھی
اپنے بچپن کو میں صدا دوں گا
درد_ دل خواب کا پڑوسی ہے
سوتے دم میں اسے جگادوں گا
حادثہ رفتگاں کے ساتھ گیا
سانحہ ایک دن بھلا دوں گا
کھینچ کر دیکھ انتظار کبھی
تجھ کو حیرانیاں سوا دوں گا
ایک جگنو شعار بن تو سہی
ہر طرف تیرگی بچھا دوں گا
ظلمت_ دہر کا گلہ مت کر
تجھ سے مل کر اسے مٹا دوں گا
سوزش_ جان ہے یہ تنہائی
میں اسے ہجر لا دوا دوں گا

Post a Comment