گَڑے ہو ؤ ں نے تِرے بال و پَر سَہے ہوئے ہیں 
کہ تیرے دَم سے گلِستاں میں چہچہے ہوئے ہیں
ہماری گونج ہمیں شک میں ڈال دیتی ہے 
کہ اس جہان سے باہر بھی ہم کہے ہوئے ہیں 
حقیر ایسی نہ جانو یہ خانقاہِ بدن
قطب ، ولی و پیمبر یہاں رہے ہوئے ہیں 
کس اہلِ دل سے سند لوں کلامِ تازہ تِری
سخن ہوا ہے کہ بس غم کے قہقہے ہوئے ہیں 
بجا، کہ تُو نے بنایا تھا اپنی چاپ ہمیں 
گَہے نہ ہو سکے آوازِ پا ، گہے ہوئے ہیں 
تِری نگاہ کی لہریں نئی نہیں ہیں پسر!
کہ اس بہاؤ میں ہم بھی بہت بہے ہوئے ہیں

Post a Comment