لب ہیں خاموش مگر دل میں گلہ ہے تو سہی
ایک آنسو میری آنکھوں سے بہاہے تو سہی
زندگی کھوجنے نکلا ہوں تو پاؤں گا تجھے
''ایک الجھا ہوا ہاتھوں میں سرا ہے تو سہی''
اپنے ساجن سے ملاقات کو جانے کے لئے
ہے تو خستہ سا مگرا ایک گھڑا ہے تو سہی
رات کالی ہے ابھی آس مگر زندہ ہے
روشنی دیتا ہوا ایک دیا ہے تو سہی
میری امید میں یا رب ابھی دم باقی ہے
دل شکستہ ہے تو کیا لب پہ دعا ہے تو سہی
غم کا طوفان جو برپا ہے کئی برسوں سے
تیرے آنے سے ذرا دیر تھما ہے تو سہی
اب کے برسے گی یہاں رحمتِ باراں شائد
نیلے امبر پہ سیاہ ایک گھٹا ہے تو سہی
زندگی زہر ہے امرت یا کوئی اور ہی شے
جو بھی ہے جام یہ ہنس ہنس کے پیا ہے تو سہی
ٹوٹ جاتے ہیں مگر جھکتے نہیں عاکف جی
ان میں تھوڑی سی خوِدی اور انا ہے تو سہی
٭٭٭
عاکف غنی

Post a Comment