خواب، دنیا،ہجر،دوئی،جسم و جاں کوئی نہ ہو

اب ہمارے اور تمھارے درمیاں کوئی نہ ہو

اب کے ممکن ہے چمن کی گود خالی ہی رہے

اب کے ممکن ہے سر نوکِ سناں کوئی نہ ہو

عزم کی تاکید کہ تنکے چنو ہر حال میں

بجلیوں کی ضد یہی ہے آشیاں کوئی نہ ہو

ادھ جلی اک لاش پہ کوئی تھا یوں نوحہ کناں

کچھ بھی ہو، مفلس کے گھر بیٹی جواں کوئی نہ ہو
نصیر احمد

Post a Comment