1-

مجھے خبر ھے کہ آج کوئی نہی آئے گا
چاہے کتنے ہی در و دیوار کھلے رکھو
چاہے ساعتوں کی فصل زمییں پہ اگا لو
یا دعاؤں کے کلش سر پہ اٹھا لو
۔ ۔ ۔ آج کوئی نہی آئے گا

2-

میرا خیال تھا کہ تو آئے گی
ساتھ میں آکاش سے کچھ ستارے بھی لائے گی
کہکشاں کی بات کرے گی
اور آسمانوں کی سنائے گی؛
تیری آمد سے بجھے پھول کھل اٹھیں گے
اور کلیاں بیساختہ مسکرائیں گی؛
میں زمیں کے زروں سے تیری جبیں سجاؤں گا
اور وقت کے ظلموں کی داستاں سناؤں گا

مگر ساعت گزر گئی
اور تو نہ آئی
اور اب انتظار بھی تھک کے بیخود ہو چلا

3-

یہ تو روزِ ازل سے طے تھا
تو آج کے روز نہی آئے گی؛
تیرے خیر مقدم کے لئے
سرخ قالین میں نے بچھائے بھی نہی
اور نہ ہی گھر کو سجایا میں نے؛
تیرے قدموں کے لئے
میں نے نرم ہری دوب بھی تو اگائی نہی؛
اور نہ ہی در و بام پہ دیپ جلائے میں نے

میں تو بس بت سا بنا
خلا کو تکتا ہی رہا
کہ شائد کوئی معجزہ ہو جائے
اور تو کسی آکاش سے
میرے آنگن میں اتر آئے

4-

تو آئے گی یا نہی مجھ کو معلوم نہ تھا
دل کو خبر تھی نہ زہن کو پتہ تھا
پھر بھی میں راہ تکتا رہا
اور بیخبر بھی رہا ،
میں نے ہر آہٹ بھی سنی
اور تصویر ِبیخود بھی رہا ،
میں منتظر بھی رہا
اور پیکرِ بینیازی بھی رہا ،
میری دھڑکنیں بیچین رہیں
اور میں نے تھپکیاں دے کے دل کو سلایا بھی بہت؛

تو شائد وقت کی مٹھی میں کہیں قید ھے،
نہ ہی بلانے سے میرے آئے گی
اور نہ ہی وقت مہرباں ہو گا مجھ پر،
منتظر راہوں پہ وقت کے سخت پہرے ہیں ؛
اور اب میں بھی تو کہاں تک
اپنی ہی آواز کی بازگشت سنتا رہوں !

-محمد احسن

Post a Comment