خواب بھی چھینے ہیں بے خوابی نے

جاگتی رات کے شکنوں بھرے بستر سے اٹھی

سن کے اعلان سحر گھنٹوں سے گھڑیال کے میں

دھندلے شیشے سے بند کھڑکی کے

دور تک گھوم کے لوٹ آئی نظر

ایک مدھم سے اجالے میں سفیدی اوڑھے

مانند نقش تھی ہر شے ساکت

جیسے کہ صبح ازل ہو

کہ ابد کا کوئی لمحہ شاید

کوئی ذی روح نہیں ہے، کوئی آواز نہیں

جھاڑی سے جھانکتا بھورا خرگوش

سبزے پہ ٹہلتے معصوم ہرن ۔ ۔ ۔ کوئی نہیں

جن کی چہکاروں سے معمور فضا رہتی تھی

اڑ گئے دور پرندے سارے

کوئی آواز نہیں

برف کی تہہ میں چھپے رستوں پر

کوئی رہ گیر نہیں

اور اعصاب کو کھاتا ہوا سناٹا یہ

روح میں اترا ہے وحشت بن کر

بڑی شدت سے اٹھی دل سے مرے یہ خواہش
کوئی آواز سنوں

کسی ذی روح کی آواز سنوں

جانے کس یاد کی گہرائی سے ابھرے کچھ لفظ

ذہن میں گونجے لبوں سے پھسلے

کتنی پاکیزہ و معصوم ہو تم

ان چھوئے برف کے پھولوں جیسی

جانے کیا جادو تھا ان لفظوں میں

ہو کے گلنار مہک اٹھے تھے رخسار مرے

فرحت پروین

Post a Comment