مراقبوں میں ، دعائوں میں رقص کرتا ہوں
چھلکتے اشک میں، آہوں میں رقص کرتا ہوں
۔۔۔
خود اپنی کھوج میں پانچوں دشائوں میں تنہا
میں اپنی ذات کی بانہوں میں رقص کرتا ہوں
۔۔۔
میں شہرِ نغمہ گراں کا ملامتی صوفی
بصد شعور ، گناہوں میں رقص کرتا ہوں
۔۔۔
مجھے نہ روک سکے فرقہ باز دین فروش
میں احدیت کی پناہوں میں رقص کرتا ہوں
۔۔۔۔
ورائے شمس،ترے نور کے مدینوں میں
میں قدسیوں کی نگاہوں میں رقص کرتا ہوں
۔۔۔
محبتوں کی رُتوں میں پہن کے بادِ بہار
گلاب شہر کی راہوں میں رقص کرتا ہوں
۔۔۔
شمار کر نہ مجھے وقت کے بخیلوں مین
میں شاہ ظرف ہوں، شاہوں میں رقص کرتا ہوں
۔۔۔
لُٹا لُٹا کے نشے میں متاعِ ہُشیاری
میں آگہی کی شعاعوں میں رقص کرتا ہوں
۔۔۔
برستا رہتا ہوں مسعود، دل کے آنگن میں
میں برشگال ادائوں میں رقص کرتا ہوں
۔۔۔۔
مسعود منور

Post a Comment