اپنی ہی روانی میں بہتا نظر آتا ہے
یہ شہر بلندی سے دریا نظر آتا ہے
دیتا ہے کوئی اپنے دامن کی ہوا اسکو
شعلہ سا مرے دل میں جلتا نظر آتا ہے
اس ہاتھ کا تحفہ تھا اک داغ مرے دل پر
وہ داغ بھی اب لیکن جاتا نظر آتا ہے
آنکھوں کے مقابل ہے کیسا یہ عجب منظر
صحرا تو نہیں لیکن صحرا نظر آتا ہے
اک شکل سی بنتی ہے ہر شب مری نیندوں میں
اک پھول سا خوابوں میں کھلتا نظر آتا ہے
آنکھوں نے نہیں دیکھی اس جسم کی رعنائ
یہ چار طرف جس کا سایا نظر آتا ہے
دریا کو کنارے سے کیا دیکھتے رہتے ہو
اندر سے کبھی دیکھو کیسا نظر آتا ہے
پھر ضو میں ندیم اپنی کچھ کم ہے ستارہ وہ
یہ رات کا آئینہ دھندلا نظر آتا ہے
انعام ندیم

Post a Comment