یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ لیکن کیا کبھی آپ نے یہ بھی سنا ہے کہ کہانی بھی اپنے آپ کو دہرائے ؟ ۔ ۔ ۔ میں آپ کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا نہ ہی آواگون کے چکروں میں آپ کو الجھانا چاہتا ہوں۔
میں تو صرف یہ بتانے لگا ہوں کہ کہانی بھی اپنے آپ کو دہراتی ہے یا ہوسکتا ہے یہ میرا وہم ہو۔۔ ۔ ۔ ۔ ممکن ہے آپ میری اس الجھن کو سلجھا سکیں ۔ یہ خیال مجھے اینی کی کہانی سن کر آیا . ہوا یوں کہ اینی کی بپتا سن کر مجھے بیس پچیس برس پہلے پڑھی ہوئی ایک سچی کہانی یاد آگئی ۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ہم اسکول اور پھر کالج میں تھے ۔ فراغت کے دن تھے ۔ پڑھائی کے نام پر ابن۔ صفی کے مزیدار ناول پڑھے جاتے یا بہنوں اور بھابی کیلئے آئے ہوئے عجیب و غریب رسالوں کے افسانے پڑھے جاتے جن میں شکیلہ آپا زردوزی کے کام والا گلابی غرارہ پہنے پائیں باغ میں چائے نوش فرمارہی ہوتیں اور لمبی ، سفید چمچماتی گاڑی میں خوبرو ہیرو عدیل حسینی داخل ہوتے ( آپ ہی بتلائیے کیا اس سے بھی واہیات کوئی منظر ہوسکتا ہے ) ۔ خیر بات ہورہی تھی اینی کی ۔ اس کی بپتا سن کر مجھے اسی زمانہء طالب علمی کے کسی رسالے میں چھپی ایک خاتون کی سچی کہانی یاد آگئی ۔ ایٹوریل میں تحریر تھا کہ یہ کہانی سچی ہے مگر رازداری کی خاطر نام و پتے سب فرضی ہیں ۔ خاتون اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہ رہی تھیں سو انہوں نے تمام قارئین کو ایک لحاظ سے اپنا شریک۔ راز کر لیا تھا ۔تقسیم سے پہلے کا قصہ تھا۔ وہ دس بارہ سال سے بیاہتا اور بے اولاد تھیں ۔ تمام دوائیاں، ٹوٹکے،ترکیبیں، غزائیات اور کُشتے وغیرہ آزمائے جا چکے تھے ۔ اب تعویذوں اور پیروں فقیروں پر گذارہ تھا ۔ گاؤں سے ذرا سا دوری پر قبرستان تھا ۔ وہ تو بھلا ہو برتن مانجھنے والی ماسی کا، اس نے بڑی رازداری سے یہ اطلاع پہنچائی کہ قبرستان کی ٹوٹی دیوار کے ایک طرف ایک بوسیدہ سی بے نام و نشان ایک گم نام ولی کی قبر ہے ۔ ماسی نے اتنے وثوق سے بتایا کہ خاتون کے دل میں بے اختیار اشتیاق پیدا ہوگیا ۔ دو ایکبار وہ ماسی کے ساتھ جگہ بھی دیکھ آئیں ۔ وظیفے کی شرط بہت کڑی تھی ۔ چاند کے کسی بھی مہینے کی آخری جمعرات کو رات گئے کم از کم دو گھنٹے وہاں اکیلے حاضری دینا بہت ضروری تھا۔ مناسب موقع کی تلاش میں کئی مہینے گذرگئے اور آخرکار وہ سعید گھڑی آن پہنچی ۔ وہ خاتون اکیلے میں نہایت پر امید اور خوف زدہ اس قبر پر پہنچیں ۔ رات گئے قریب سے گذرتے نشے میں دھت ایک انگریز سپاہی نے ایک جوان اور خوبرو عورت کو یوں نامراد پایا تو اس کی مراد پوری کردی ۔ بارے خاتون کے حمل قرار پایا اور جب بیٹا پیدا ہوا تو خاندان سے لیکر سارے گاؤں میں دھوم مچ گئی ۔ اور خدا کی دین دیکھئیے کہ بچہ اس قدر حسین کہ نیلی تو اس کی آنکھیں ، نرم نرم گلابی گال اور اس پر ہلکے ہلکے سنہری ملائم بال ۔ گویا گھر میں فرشتے نے جنم لیا تھا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح قریب کے سارے علاقے میں آنا" فانا" پھیل گئی اور کیا ہندو کیا مسلمان، عورتوں کا ہجوم اس قبر کے اطراف جمع رہنے لگا۔ قبر کے قریب ایک پختہ احاطہ تمیر ہوگیا اور ایک سال کے اندر اندر ایک شاندار مزار کی تعمیر شروع ہوگئی۔ امریکہ شریف میں تعلیم سے فراغت پر مجھے ایک فرم میں بہت اچھی نوکری مل چکی تھی ۔ خوش حالی اور لا ابالی کے دن تھے ۔ جہاں میں رہتا تھا وہاں سے ذرا سی دوری پر اپنے پاکستان ہی کے کمال صاحب کا گروسری اسٹور تھا۔ دوسری طرف چھوٹی سی شاپنگ اسٹرپ میں ایک ڈونٹ شاپ، ایک ویڈیو کی دکان اور ساتھ ہی ایک ہئر کٹنگ سیلون تھا جسے ایک ویت نامی خاتون اینا چلاتی تھی ۔ میں مہینے میں ایک آدھ بار اسی کے ہاں بال بنواتا ۔ جب وہ اپنے گہرے ویتنامی لہجے میں انگریزی بولتی تو بہت اچھا لگتا ۔ کچھ ہی دن ہوئے اس کی بہن اینی نے اس کے ساتھ کام شروع کردیا تھا ۔ شروع میں جب اینا مصروف ہوتی تو اینی نہ صرف میرے بال کاٹتی بلکہ شیمپو کرنے کے دوران بڑی مہارت سے کنپٹیوں اور پیشانی پر مساج بھی کرتی جس سے سر بہت ہلکا ہوجاتا ۔ اینی بدھ اور جمعرات کو دکان پر آتی اور میں نے بھی یہ عادت بنالی کہ بدھ یا جمعرات ہی کو بال بنواتا ۔ اینی سیدھی سادی جوان عورت تھی ۔ زردی مائل سفید رنگ، چھوٹی چھوٹی روشن آنکھیں، سیاہ گھنے بال جو ہر وقت بہت ہی سلیقے سے بندھے ہوتے ۔ وہ مجھے بتاتی کہ ان کے ہاں آنکھیں چھوٹی اور کان کی لویں گردن سے چپکی ہوئی ہوتی ہیں ۔ شیمپو کے دوران میں آرام دہ کرسی پر نیم دراز ہوتا, گردن واش بیسن میں ہوتی اور نیم گرم پانی وہ میرے بال دھوتی جاتی اور گویا اس کا حسین وجود میرے اوپر سایہ سا کئے رہتا ۔ وہ مجھے بتاتی کہ بھری بھری ناک، بڑی بڑی آنکھیں اور بڑے بڑے کان جن کی لویں چہرے سے چپکی ہوئی نہ ہوں ۔ ۔ ۔ یہ تمام خصوصیات بُدھا کی ہیں لہٰذہ قابل ۔ احترام ہیں ۔ اسے رفتہ رفتہ میری ان خصوصیات سے عقیدت سی ہوگئی ۔ بات چلی تھی اینی کی کہانی سے ۔ کہانی اس کی یہ تھی وہ ستر کی دہائی میں امریکہ آئی ، یہیں برادری میں اس کی شادی ہوئی ۔ وہ پچھلے دس سال سے بیاہتا اور بے اولاد تھی ۔ باقاعدہ اپنے محلے کے چھوٹے سے مندر میں حاضری دیتی، بُدھا کے قدموں میں پھول چڑھاتی، اگر بتیاں روشن کرتی ، پانی کے کٹورے بھرتی اور کبوتروں کو دانہ ڈالتی ۔ چینی حکیموں اور عطائیوں کی دوائیاں اور ٹوٹکے بھی جاری تھے ۔ شام میں کبھی کبھار جب اس کے شوہر کی نائٹ شفٹ ہوتی تو وہ میرے ساتھ کافی شاپ تک جانے لگی تھی ۔ انہی دنوں ایک اینی میٹڈ فلم ریلیز ہوئی ۔ چیونٹیوں کی زندگی اور ان کی نفسیات پر یہ ایک نہایت اعلیٰ فلم تھی ۔ میں نے اور اینی نے وہ فلم ساتھ ہی دیکھی تھی ۔ فلم میں دکھایا گیا تھا کہ کیسے ذمہ داری اور ایک نظام کے تحت ساری چیونٹیاں اپنی زندگی گذارتی ہیں ۔ ناگہاں ایک دن ایک دیو قامت آدمی اپنے قوی ہیکل جوتوں سمیت بستی کے قریب آن نکلتا ہے ۔ باہر کام کرنے والی بے شمار چیونٹیاں ہلاک ہوجاتی ہیں ۔ کچھ اس کے جوتوں کی سول میں بنی ڈیزائین کی تہوں میں پناہ لیتی ہیں ۔ بچ تو جاتی ہیں لیکن ایک سخت، پتھریلی اور انجان زمین میں انہیں تن تنہا اپنی زندگی پھر آغاز کرنا پڑتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مقدر کا ایک دیو قامت وجود اپنے قوی ہیکل جوتوں سمیت ہماری بستیوں کے گرد بھی آ نکلتا ہے ۔ بے شمار لوگ اس کی زد میں آکر کچلے جاتے ہیں اور جو بچ جائیں انہیں ایک سخت ، پتھریلی اور انجان سرزمین میں اپنی زندگی تن تنہا پھر آغاز کرنا پڑتی ہے ۔ ایک روز میں ڈاؤن ٹاؤن کی ایک فلک بوس عمارت میں واقع اپنے دفتر میں پہنچا تو مجھے اطلاع ملی کہ راتوں رات ہماری کمپنی زمیں بوس ہوچکی ہے ۔ میں مقدر کے سخت اور قوی ہیکل جوتوں کی زد میں آ چکا تھا ۔ دو چار مہینوں کی بے روزگاری نے طبیعت صاف کردی ۔ کیلی فورنیا چھوڑ کر ایک دوست کے ہاں اٹلانٹا میں پناہ ملی اور ایک نسبتا" کم تر نوکری پر گذارہ کرنا پڑا ۔ دو ڈھائی برس کے بعد جب کچھ ہوش ٹھکانے آئے تو اپنے بچے کھچے اثاثے کو ٹھکانے لگانے کی غرض سے کرسمس کی چھٹیوں میں کیلی فورنیا چلا آیا اور اپنے پرانے محلے میں پٹیل صاحب کے ایک سستے سے موٹل میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا ۔ کمال صاحب کے کے گروسری اسٹور سے گذر ہوا تواچانک اینی یاد آگئی ۔ جب اس کی دکان پر پہنچا تو اینا سے ملاقات ہوئی ۔ بڑے پیار سے ملی۔ جب گاہکوں سے فارغ ہوئی تو میرے پاس آ بیٹھی اور مجھے اینی کے بارے میں بتانے لگی جو کچھ ہی عرصہ پہلے اپنے خاوند اور بچہ سمیت نیویارک منتقل ہوگئی تھی ۔ اینا مجھے بتارہی تھی کہ میرے کیلی فورنیا سے چلے جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد اینی کے ہاں ایک بیٹے نے جنم لیا ۔ اور بُدھا کے اس چھوٹے سے مندر سے اینی کی عقیدت کی انتہا اور اس مندر کی کرامت دیکھو کہ اس کے بیٹے کے نرم نرم سیاہ بال ہیں، بڑی بڑی آنکھیں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے بڑے بڑے کانوں کی لویں چہرے سے چپکی ہوئی نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے بتایا وہ مندر اب بہت مقبول ہوگیا ہے ۔ امریکہ بھر سے بے اولاد جوڑے دعا کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔ اب اس چھوٹے سے مندر کی جگہ کمیونٹی کے لوگ ایک بہت بڑے پگوڈا کی طرز کے مندر کی تعمیر میں مصروف ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جانے اور کیا کچھ بتاتی رہی ۔ ۔ ۔ اور میں یہ سوچتا رہ گیا کہ یہاں پہنچ کر کہانی مختلف کیوں ہوگئی ؟میں نے جو کہانی پڑھی تھی اس میں تو انگریز سپاہی کی واپسی کا تذکرہ نہیں تھا ۔ ۔ ۔ ۔ شاید یہ اذیت بھی میرے ہی نصیب میں لکھی تھی ۔ ۔ ۔ مجید اختر ۔ لاس اینجلس

Post a Comment