" واہ واہ" خوب باندھا ہے کی صدا نےاس کے دل کی بے ترتیب ردھم کو متوازن کر دیا تھا.اب اس کے چہرے پر سرخی بکھرتا لہو گھبراہٹ کی بجائے جوش کا رنگ لئے ھوئے تھا.
نوجوان شاعر جسے مشق سخن کا آغاز کئے زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا اپنی خوب صورت سی رومانوی غزل پیش کر کے واپسی کے لئے سٹیج سے مڑا، تھوڑا سا لڑکھڑایا اور پھر جوش بھری دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ دیگر ساتھیوں میں جا بیٹھا.
یہ منظرنامہ ہے گورنمنٹ کالج ساھیوال کی ادبی تنظیم بزم سخن کا، جس کی ہفتہ وار ادبی نشت میں اس نوجوان شاعر نے شرکت کا آغاز کیا تھا.
رومانوی شاعری کے بینالسطور عشق حقیقی یا عشق مجازی جلوہ افروز ہو ، یہ ضروری تو نہیں. نرگسیت بھی رومان کی وجہ تسمیہ ہوسکتی ہے، لڑکپن کی زیادہ تر شاعری نرگسیت کی دین ہوتی ہے. نوجوان شاعر جس نے ایک چھوتے مضافاتی شہر سے ایک تھوڑے بڑے مضافاتی شہر مین حصول علم کے لئے ہجرت کی تھی نرگسیت آمیز رومان کا علمبردار شاعر تھا. اس نوجوان شاعر نے بلا شبہ خود کو آغاز سفر میں رومانویت کی گرفت میں دے دیا تھا لیکن حیات شناسی اور وقت کی رفتار نے اس کے لئے نئے راستے متعین کئے.
اس نے اپنی فکر کی جہات کے لئے اپنے آپ کو محدود نہیں کیا اس نے فکر کو جلا بخشنے کے لئے نئے راستے تراشے.
اس نے سوسائٹی کی زود فراموشی و شکست و ریخت اور تصورات کی پامالی سے لے کر تمام تغرات کا مکمل منظرنامہ اپنی شاعری میں پیش کیا. وقت کے لمبے سفر نے اسے نرگسیت کی گرفت سے نکال کر اس مقام پر لا کھڑا کیا جو زندگی سے بھرپور کسی بھی شخص کے اندر پیار کی رت جگا دیتا ہے. اس پیار کی کہانی کا تانا بانا بنتے ہوئے کل کا نوجوان شاعر آج کا صاحب طرز کہنہ شق شاعر قاری کو اپنی جگہ لا کھڑا کرتا ہے. یہی وہ مقام ہے جہاں یہ شاعر اپنے اندر مظہریات سے جمالیات تک کے تمام زاوے اپنے قاری پر کھول دیتا ہے. شاعری صرف عرض ہنر کا نام نہیں. یہ ظاہر سے باطن اور باطن سے ظاہر کے سفر سے مستعار ہے.

تو فقط سینہ و دل ہے نہ فقط عارض و لب

سخن آغاز کرے کوئی کدھر سے پہلے

مجھ گمنام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں

عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے

پھٹا پرانا خواب ہے میرا پھر بھی تابش

اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ہے

ہمارے جیسے وہاں کس شمار میں ہوں گے

کہ جس قطار میں مجنوں کا نام آخری ہے

عباس تابش کے نام سے شہرت پانے والے اس شاعر نے پہلی ہجرت حصول علم کے لئے میلسی سے ساھیوال تک کی، ساھیوال مجید امجد کا شہر، دوسری ہجرتاس نے حصول روزگار اور حصول نام کے لئے کی اور اس ہجرت نے اسے کنویں سے سمندر میں لا پھینکا. دستور زمانہ کی طرح ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لاھور جیسے ادب کے سمندر کی کوئی لہر ریت پر لکھے ہوئے نام کی طرح اسے بھی بے نام کر دیتی لیکن عباس تابش کی فکری وسعتوں اور اضافتوں کی بنت کی تمام تر جمالیاتی پرتوں نے اسے نا صرف نےنام ہونے سے بچایا بلکہ اس کا نام اس فہرست میں شامل کر دیا جو نامور ہوتے ہیں.

کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں چپ چاپ

ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں

گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا

ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن

لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم ہیںوہ ٹوٹٰی ہوئی کشتیوں والے تابش

جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں

پاس ہی ڈوب رہی ہے کوئی کشتی تابش

خود نہیں بچتے اگر اس کو بچانے لگ جائیں

سوسائٹی میں اقدار کی شکست و ریخت کا اس سے بہتر نوحہ اس سے پہلے نہیں کہا گیا.

تابش کو تخلیقی زبان پر بلاشبہ قدرت حاصل ہے اس کا کہنا ہے کہ

خلوت خاص میں بلوانے سے پہلے تابش

عام لوگوں میں بہت دیر بٹھایا گیا میں

مجھ ایسے کوہ کن کو رفتگان کا رنج ہے تابش

میں پتھر کاٹ کر نہریں نہیں کتبے بناتا ہوں

میں ادب کا ادنی سا قاری ہوں. اسی ناطے یہ سمجھتا ہوں کہ تابش کے کلام میں ایک خاص غنا کا عنصر ہے. اس کے اشعار پڑھنے سے ایک کیفیت کا احساس ہوتا ہے، ایک وجد کا عالم طاری ہونے لگتا ہے ،ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اچھوتی بات کہہ دی گئی ہے. اس کے کلام کی زیبوزینت میں تغزل کا بڑا حصہ ہے اور اس تغزل نے اس کی غزل کو مقبول رنگ عطا کیا ہے.

تابش کا یہ شعر دوہراتے ہوئے اپنی بات ختے کرتا ھوں

مجھ ایسے کوہ کن کو رفتگان کارنج ہے تابش

میں پتھر کاٹ کر نہریں نہیں کتبے بناتا ہوں

یہی لہجہ اردو غزل میں تابش کو منفرد بناتا ہے.

Post a Comment