آسماں پر کوئی خُدا بھی نہیں
خاک پر کوئی ہم نوا بھی نہیں
ہو کا عالم ہے، کوئے جاناں میں
کوئی غمزہ ،کوئی ادا بھی نہیں
میں نے تو عشق کی عدالت کا
آخری فیصلہ سنا بھی نہیں
کچھ تو ہوگا مرے مقدر میں
کیا ترے ہاتھ کی حنا بھی نہیں؟
ایک مدت سے لب برہنہ ہوں
بوسہ ء یار کی ردا بھی نہیں
ذکر پر جس کے، مجھ سے اُلجھا تو
میں تو اُس سے کبھی ملا بھی نہیں
ہجر کی رات پچھلی رات سہی
لیک ، یہ واقعہ نیا بھی نہیں
موت لاتا ہے زندگی کا مرض
اس مرض کی کوئی دوا بھی نہیں
وصل کی سب کے زیورات میں یار
کیسے شامل زرِ حیا بھی نہیں؟
عشق میں توڑ سب حدیں ، مسعود
یار، اس جرم کی سزا بھی نہیں
مسعود منور

Post a Comment